سوال: دنیا کےموجودہ دینی و دنیاوی حالات پر تبصرہ فرمائیے، اس وقت جو نفسہ نفسی کا دور ہے جو اس وقت حالات دنیا کے جارہے ہیںدنیا جو خدا کو چھوڑ کے ایک دوسری طرف بھاگے جارہی ہے، دوڑ لگی ہوئی ہے پاکستان میں بھی اور یہاں بھی اور ہر جگہ ان حالات پر آپ تبصرہ فرمائیے ۔
سرکار شاہ صاحب: دو طاقتیں ہیں، ایک درویش کے پاس ایک آدمی آیا اور پوچھا کہ تم نے رب کو کیسے پایا؟ تو اس نے کہا کہ جیسے پہلے میں نے رب کا چھوڑا تھا۔ وہ بڑے حیران ہوئے کہ پہلے رب کیا؟ جواب ملا کہ کیا تونے قرآن میں نہیں پڑھا کہ ان لوگوں نے حرص و ہوس کو اپنا خدا بنالیا ہے۔جب تک آپ اُس رب(حرس و ہوس) کو نہیں چھوڑیں گے اِس رب العزت کو پا نہیں سکیں گے ۔لوگ اُس رب(حرس و ہوس) کی طرف دوڑ رہے ہیں ، بہت کم ہیں جو اِس رب العزت کی طرف دوڑتے ہیں۔اب اکثیریت اُس رب(حرس و ہوس) کی طرف ہے اور اُس رب(حرس و ہوس) کی طرف جو ہے وہ شیطان ہے اورشیطان تو انسان کا ازلی دشمن ہےتو بڑے آسان طریقے سے بڑے پیارے طریقے سے آپس میں لڑا رہا ہے اور دین سے بے گانا کررہا ہے ۔ اب یہی ہے کہ لوگ اُس رب(حرس و ہوس) کو چھوڑیں اور اِس رب العزت کی طرف آئیں، رزق تو انکو وہی ملنا ہے جو اُدھر ہے ۔ اگر آپ شیطانیت میں ہیں پھر بھی رزق وہی کھائینگے اور اگر آپ رحمانیت میں ہیں جب بھی آپنے رزق وہی کھانا ہے تو پھر بجائے شیطانیت کے رحمانیت میں کیوں نہیں آتے۔
سوال: سرکار یورپ اور امریکہ کی جو موجودہ ترقی ہے اس کو آپ کس نظر سے دیکھتے ہیں؟کیا جس پیک پر یہ ترقی پہنچ گئی ہے ممکن ہے کہ اسکے بعد بھی کو ئی ترقی ہو؟اور جیسا کہ پہلے ہم پڑھتے رہے ہیں کہ ترقی جب پیک پر پہنچتی ہے تو ڈیکلائن شروع ہوجاتا ہے اسکا۔
سرکار شاہ صاحب: جتنی ضرورت تھی اللہ کو اتنی ترقی ہو چکی ہے اب اس سے آگے زیادہ اللہ کو ضرورت نہیں ہے۔اللہ کو ضرورت تھی کہ یہ لوگ سیارے ایجاد کریں یہ ٹیلیفون ایجاد کریںاس سائنس کی یہ اللہ تعالیٰ نے خود کروایا تھا۔لوگ تو کہتے ہیں کہ یہ انگریزوں نے کیا ہے لیکن یہ اللہ نے کروایا ہے۔کیوںکہ اللہ تعالیٰ نے امام مہدی کو بھی بھیجنا تھا ۔ اگر یہ نظام نا ہوتا توامام مہدی تو پھر ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے؟ انکو تو ساری دنیا کیلئے بھیجنا تھا ، نبیوں کو خاص علاقوں کیلئے بھیجا تھا ، کسی کو ایک قبیلہ کیلئے تو کسی کو دوسرے قبیلہ کیلئے اور مختلف جگہ کیلئے لیکن امام مہدی کو تو پوری دنیا کیلئے بھیجا جائیگا تو پھر پوری دنیا کا نظام بنایا تاکہ امام مہدی ہر جگہ جاسکے اور لوگ ان کی طرف آسکیں۔
سوال: اس کا مطلب یہ سمجھیں کہ دنیاکا اب خاتمہ ہونے والاہے؟
سرکار شاہ صاحب: اب اس سے اور آگے ترقی نہیں ہے بس!
سوال: اِس پہلے تو حضرت امام مہدی ؑ تشریف لائیں گےاور عیسیٰ ؑ کا آسمان سے ظہور ہونا اور دجال کے ساتھ جنگ ہوگی؟
سرکار شاہ صاحب: یہ جو ساری سہولتیں ہیں انکے لئے ہیں !
سوال: تو پھر قیامت تو ابھی نزدیک نا ہوئی نا؟ جسمیں ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ امام مہدی ؑ چالیس سال تک حکومت کریں گے۔
سرکار شاہ صاحب: کسی نے کہا 10 سال تک کریں گے، کسی نے کہا 40 سال اور کسی نے کہا کہ 10 اور 40 کے درمیان تک حکومت کریں گے۔
سوال: تو کیا یہ عرصہ جو ہے یہ ہمارے ٹائم فیکٹر کے مطابق ہوگا یا اللہ کے ٹائم کے مطابق، 10 سال کا یا 40 سال کا اور یا اس کے درمیان جو بھی؟
سرکار شاہ صاحب: یہ اللہ کے ٹائم فیکٹر کے مطابق ہوگا۔
سوال: انگلینڈ کے اداروں کے متعلق جو خطاب آپنے فرمایاتھا ،مجھے اسکی ایک دو پریس ریلیز موصول ہوئیں تھیںوہ میں نے اپنے اخبار میں لگائیں تھیں، اسکے رسپونس میں سپاہِ صحابہ کی طرف سے ایک نیویارک میں اور اردو اخبار ہفت روزہ پاکستان ایکپریس ، اس میں انکا بیان تھا کہ آپ نے اپنے رسالہ روشناس میں کہا کہ نماز روزہ کی کوئی ضرورت نہیں اور یہ کہ آپ نےامام مہدی ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔
سرکار شاہ صاحب: پہلی بات ہے کہ یہ تو میں نے کبھی نہیں کہا کہ نماز روزے کی ضرورت نہیں ہے آج تک! یہ ضرور کہتا ہوں کہ ذکر کر پہلی حالت سے بہتر ہوجائیگاجب نماز پڑھے گا تو اور بہتر ہوجائیگا۔یہ ضرور کہتا ہوں کہ اگر تو شراب پیتا ہے تو نماز نہیں پڑھ سکتا ۔ ہاں! اگر ذکر کرے اور وہ تیرے اندر ٹھہر جائے تو وہ تیری شراب چھڑادیگاپھر تو نماز کے قابل ہوجائے۔ یہ میں نے کبھی نہیں کہا کہ تو نماز نا پڑھ۔ اور دوسرا میں نے کبھی نہیں کہا کہ میں امام مہدی ہوں یہ ضرور کہا کہ جس میں یہ نشانیاں ہونگی، کمر کے اوپر قلمہ ہوگاجس طرح حضور پاکؐ کی پشت کے او پر تھااسی طرح امام مہدی کی پشت کے اوپر ہوگا ہم اس کو امام مہدی مانیں گے خواہ وہ کوئی بھی ہو۔میں ہوں یا تم ہو! خواہ بچہ ہو یا بوڑھا ہو ۔ آج تک یہی کہتا ہوں آگے ان لوگوں کی اپنی اپنی سمجھ ہے یہ کیوں امام مہدی سمجھتے ہیں یہ آپ ان لوگوں سے پوچھیں، انہوں نے کیا کیا نشانیاں دیکھیں ہیں جسکی وجہ سے یہ امام مہدی سمجھتے ہیں ۔ یہ تو انکی اپنی سوچ اور سمجھ ہے لیکن میں نے آج تک نہیں کہا اور ہوسکتا ہے نا بھی کہوں پوری زندگی میں ہی نا کہوں، اور اگر بن بھی جاؤں تو نا کہوں ۔ یہ صرف انکی بغص اور حسد ہے ۔ رہا سوال ! امام مہدی کو آنا تو ہے ہم میں سے ہوگا ہاں جو جھوٹا دعویدار ہوگا وہ آخر میں ذلیل ہوگاجس طرح ہوتے ہیں ۔ جو منجانب اللہ ہوگا اگر وہ نہیں کہے گا کہ میں نہیں ہوں تو اسکو آپ جیل میں بھی بند کردیں گے آخر تو وہی امام مہدی ہے جو اللہ کی طرف سے ہے ، کیوں جی ہونا تو وہی ہے جو اللہ کی طرف سے آیا ۔
سوال: سرکارسپہ صحابہ کی طرف سے یہ بات بھی تھی کہ ایک تو یہ امام مہدی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسرا بہت زیادہ امیرہیں۔
سرکار شاہ صاحب: امیر ہونا گناہ تو نہیں ہے کہ گناہ ہے؟امیر حضرت عثمان غنیؒ نہیں تھے؟ اگر ہمارے پاس پیسہ نا ہوتا تو آج ہم یہاں کیسے تمہاری تبلیغ کا کام کرتے؟ہمارا زیادہ جو کام کیا ہے نا وہ گاڑیوں نے کیا ہے ، کاریں تھیں ہم جگہ جگہ کاروں کے ذریعےگئے پھر اسکے بعد پیسہ ملا تو ہم جہازوں کے ذریعے، کتنا خرچہ ہوتا ہے اسی کام کیلئے ، ہمارا کوئی اور بزنس تو نہیں تھا ۔اگر ہمیں امیر بنایا ہے تو اللہ نے بنایا ہے ۔ ہم تو خود سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر جنگلوں میں چلے گئے تھے ،اگر امیری کا شوق ہوتا تو جنگلوں میں کیوں جاتے؟ جسکو پیسے کا شوق ہوتا ہے وہ جنگلوں میں جاتا ہے؟ تو اللہ نے کہا کہ اب شہرو ں میں جا، ہم نے کہا کہ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے کہ تیرے دین کی خدمت کریں، اسنے فرمایا کہ ہم ذمہ دار ہیں ۔اگر ہم امیر بننے ہیں تو اللہ کی طرف سے بننے ہیں اللہ نے خود ہم کو پیسے نہیں دیئے اپنے بندؤں کے ذریعے ہمارے سپورٹ کیں، وہ خود تو بوریاں بھر کے نہیں دیکر جاتا ں، پھر اسکے کچھ بندے تھے جنہوں نے ہماری سپورٹ کی کسی نے گاڑیوں میں ہماری سپورٹ کی، کسی نے مالی سپورٹ کی، کسی نے ٹکٹ کی سپورٹ کردی اور کوئی اسی طرح لنگر میں سپورٹ کردیتا ہے۔اسکے بعد جو ہماری بلڈنگیں وغیرہ بنی مدرسےبن گئے کچھ کھالوں کا سلسلہ شروع ہوامدرسے بھی بننا شروع ہوگئےتو یہ تو گناہ کی بات نہیں ہے۔ رہا سوال انکو یہ اعتراض ہے کہ یہ کاروں میں کیوں گھومتا ہے ؟تو کاروں میں گھومنا کونسا گناہ ہے۔ انکو یہ ہے کہ یہ اچھے لباس کیوں پہنتا ہے؟اچھا لباس پہننا بھی گناہ نہیں ہے، یہاں تک لکھا تھا کہ خوشبوعطر لگاتا ہے، خود عطر سے بھرے ہوتے ہیں اور ہمارے اوپر اعتراض ہوتا ہے۔میں عطر بھی نہیں لگاتا اور اگر لگاؤں تو تب کیا گناہ ہے؟
سوال: سرکار مختلف فرقوں کے لوگ یہ کہ رہے ہیں کہ آپ نے ایک نیا فرقہ بنا لیا ہے۔
سرکار شاہ صاحب: میں سب فرقوں کو دعوت دیتا ہوں کہ مجھے بتائیں کہ کونسا نیا فرقہ ہے۔یہ نیا فرقہ نہیں یہ سب سے پہلے فرقہ ہےجو حضور پاکؐ کے زمانے میں تھا۔حضور پاکؐ کے زمانے میں سنی بھی نہیں تھا، آپ کہتے ہیں اہلِ سنت! کوئی حضور پاکؐ کے زمانے میں ملتا ہے اہلِ سنت جماعت تھی؟کبھی نہیں ملے گا، اہلِ شیعہ، اہلِ وہابی، دیوبندی یہ ان کسی کا نام ملتا ہے؟ حضور پاک ؐ کے زمانے میں صرف ملتا ہے اُمت۔قرآن میں اہلِ سنت کا نام نہیں اُمت کا نام ہے اور اُمت کیلئے حضورپاکؐ نے فرمایا کہ اُمتی وہ جسمیں نور ہو۔یہ تو ہے جسمیں نور ہے وہ اُمتی ہے تو نور تھا تو اُمتی تھے نور نکلتا گیا سنی، شیعہ وہابی بنتے گئے ، بتائیں یہ پہلے فرقہ ہے یا نیا فرقہ؟ اب بھی اگر تمہارے اندر نور آجائے نا سنی نا شیعہ نا وہابی کہو گے امتی ہوں تمہارا یا رسول اللہﷺ ۔ یہ نیا فرقہ نہیں ہے پہلے یہی فرقہ چلا تھا۔ اب یہ کہتے ہیں کہ یہ ذکر کرتے ہیں نماز نہیں پڑھتے۔جو نماز پڑھنے والے ہیں وہ تو نماز پڑھ ہی رہے ہیںاور ساتھ ذکر بھی کرتے ہیں اور جو نماز نہیں پڑھنے والے تھے وہ اُس وقت بھی نماز نہیں پڑھتے تھے اور اب بھی نہیں پڑھتے۔رہا سوال حضور پاکؐ کے زمانے میں گیارہ سال کے بعد نماز اتری تھی پہلے کیا کرتے تھے؟یہی ذکوریت تھی۔اللہ اللہ کرتے رہتےاور پھر جب نماز اتری ہے تو ایسی نماز نہیں،پھر وہ نماز انکے دلوں میں گئی ہے اُنکو نماز حقیقت ملی آج یہ بھی اللہ اللہ کریں گیارہ سال بعد بھی یہ نماز پڑھنا شروع ہونگے تو وہی نماز حقیقت انکو میسر ہوگی ۔اور کوئی نہیں چلو اللہ اللہ کرنے سے انکو گناہوں سے تو نفرت ہوگی ، چلو اور نہیں اللہ سے محبت تو ہوگئی ہے ہوسکتا ہے یہ محبت ہی بخشش کا باعث بن جائے۔تو یہ نیا فرقہ نہیں ہے ۔ نیا فرقہ تب ہوتا اگر کہتے نماز ادھر نہیں ادھر پڑھو،رکوع ایسا نہیں ایسا۔ وہی رکوع سجود نماز ہے جو اہلِ سنت کی ہے۔صرف ہم کہتے ہیں کہ جو خالی دل ٹک ٹک کررہا ہے اسکو اللہ اللہ میں لگا لے بس!اگر تیرا دل اللہ میں لگ رہا ہے تو تیرے سے بات ہی نہیں کروں گا اعتراض بھی نہیں کروں گا کہ بس سہی جارہے ہیں ۔اگر نہیں کررہا تو میں یہ تو کہوں گا کہ جب نماز پڑھتا ہے تو ساتھ اللہ کا ذکر بھی کرلیا کر۔اگر نماز نہیں پڑھتا پھر بھی چل اللہ کا ذکر تو کر تاکہ تیری نماز کا کچھ کفارا تو ہوجائے۔تو نماز نہیں پڑھتا گناہ لکھا جاتا ہے اللہ اللہ کرتا جائیگا ثواب لکھا جائیگا، ہو سکتا ہے ثواب زیادہ ہوجائے۔ تب کہا نا کثرت سے ذکر کر، کثیرََ وَ کثیرَ جتنا زیادہ کرسکے کر۔ذکر کے علاوہ ہماری کونسی بات ہے جو نئے فرقہ کا بتاتی ہے۔
سوال: مختلف فرقوں کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ جو باتیں کرتے ہیں وہ کتابوں میں نہیں ملتیں اور یہ شریعت سے ہٹ کر بھی ہیں۔
سرکار شاہ صاحب: یہ سہی کہتے ہیں ، حضرت ابو ہریرہؒ نے فرمایا تھا کہ مجھے حضور پاکؐ سے دو علم حاصل ہوئے ، ایک تم کو بتا دیا دوسرا بتاؤں تو تم مجھے قتل کردو۔یہ حدیث ہے، اس کا مطلب ہے کہ وہ شریعت سے ہٹ کر ہی تھا تبھی وہ قتل کردیتے اگر شریعت میں ہی ہوتے تو قتل کیوں کرتے؟صرف یہ تھا یہ جو باتیں ہیں شریعت کی ان کیلئے قرآن و حدیث ہے اور یہ جو باتیں ہیں یہ سینہ با سینہ ہیں۔یہ جو ہم باتیں کرتے ہیں یہ سینہ با سینہ کا علم ہے۔وہ عام لوگوں کے لئے یہ خاص لوگوں کیلئے ، اُس سے موسیٰؑ بنتا ہے اِ س سے خضر ؑبنتا ہے۔موسیٰؑ بھی سہی ہے خضرؑ بھی سہی ہے دونوں کو آپ جھٹلا نہیں سکتےہالانکہ دونوں میں تضاد ہے۔اختلاف زبردست ہے لیکن دونوں سہی ہیں۔شریعت بھی سہی ہے تو طریقت بھی سہی ہے۔یہ سینے کا علم ہے اس کیلئے حضور پاکؐ نے فرمایا مجھے تین علم حاصل ہوئے ایک عام کیلئےوہ شریعت، ایک خاص کیلئے ولیوں کیلئے ایک میرے لئےوہ انکے لئے۔اور واقعی یہ علم کتابوں میں نہیں ہے لیکن کتابوں میں انکے اشارے تو ملتے ہیں ۔ موسیٰؑ حضرؑ کا اشارہ تو ملتا ہے ذکر کا اشارہ تو ملتا ہے اٹھتے بیٹھتےمیرا ذکر کر یہ اشارہ تو ملتا ہے ہر وقت کرسوتے میں بھی کر۔ جس طرح نماز کا ہے نمازپڑھ یہ نہیں لکھا کہ اس طرح پڑھنا یا اسطرح پڑھنا، آگے ہم کو سکھایا اسی طرح ذکر کا سوتے میں بھی کر اسکا ہم سکھاتے ہیں کہ سوتے میں کیسے ہوگاخریدوفروخت میں کیسے ہوگا۔تفصیلات ہم بتاتے ہیں یہ علم ہم کو سینہ با سینہ ملا ہے۔ واقعی کتابوں میں اسکے اشارے ہیں لیکن کتابوں میں یہ علم نہیں۔ اگر ہم کو یہ علم ملا تو حضورﷺ کے سینے مبارک سے ملا۔ اُس علم کے لئے سفید کاغذ کی ضرورت ہوتی ہے اِس علم کیلئے سفید سینا کرلو تو یہ علم حاصل ہوجائیگا۔ہر آدمی سفید سینا نہیں کرسکتااسی وجہ سے ہر آدمی اِس کو پا نہیں سکتا۔