نمازِ حقیقت اور اقسامِ بیعت

اقسامِ بیعت

پہلی قسم کی بیعت: کسی کامل سے دست بیعت ہونے کے بعد فیض کا سلسلہ شروع ہو تا ہے اس قسم میں صرف نسبت یا منسلک ہو نے سے خاص فیض نہیں ہوتا یہ سلسلہ ہر دور میںموجود ہوتا ہے لیکن اصل کا ملنا محال ہے۔جیسا کہ ایک شخص کو قادری ولایت ملی اور وہ غوث یا قطب ہوا۔اس کی وفات کے بعد اس کا لڑ کا گدی نشین ہوا پھر اس کا لڑکا اور یہ سلسلہ اس طرح چلتا رہا۔لیکن ضروری نہیں کہ باپ بھی غوث بیٹا بھی غوث حتیٰ کہ ساری نسل غوث ہی ہو کیو نکہ ولایت وراثت نہیں بلکہ خداداد ہے اور اس کامل کے خلفاء کی اولاد بھی نسل در نسل گدی نشین بن گئی اب یہ سارے قادری بزرگ ہی کہلائیں گے ان میں کئی وردو وظائف کے عامل اور کئی ظاہری عالم بھی ہونگے۔ لیکن خود کو فقیر کہلائیں گے۔جو کہ فقر کی بو سے بھی آشنا نہ ہونگے کوئی غوثیت اور کوئی قطبیت کے دعوے میں ہوگا پھر اصل کو ٹھکرائیں گے اور جھٹلائیں گے اس قسم کی ہزاروں گدیاں اور سجادے اور ہزاروں غوث وقطب ہر شہر میں ہر وقت ملیں گے۔

جبکہ ایک وقت میں ایک ہی غوث و تین قطب ہوتے ہیں ان لوگوں سے بیعت ہونا بیکار ہے اس بیعت سے بہتر تھا کہ کسی ولی کی صحبت میں ایک لمحہ گزار دیتا شاید اصحاب کہف کے کتے کی طرح صرف صحبت سے ہی حضرت قطمیر بن جاتا۔

یک زمانہ صحبت با اولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

دوسری قسم کی بیعت: سلسلہ اویسہ کے کسی کامل سے ذاتی منسلک ہونے یا نسبت سے ہی فیض شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ سلسلہ کبھی کبھی آتا ہے اس لئے اس کی شناخت بھی محال ہے۔ کامل چاہے اسے بیعت کرے یا نہ کرے لیکن وہ اویسی بیعت میں آجاتا ہے اور طالب کہلاتاہے کامل کے ذمہ اور نظر میں اسوقت تک رہتا ہے۔ جب تک کامل اس کا رخ کسی دوسری طرف نہ پھیر دے۔

حضرت اویس قرنیؓکو بھی بغیر دست بیعت کے حضور پاک ﷺسے فیض تھا حضرت ابو بکر حواری ؒکو بھی حضرت ابو بکر ؓ سے اویسی فیض تھا۔ ان سے با قاعدہ سلسلہ حواریہ چلا با یزید بسطامیؒ کو بھی حضرت امام جعفر صادق ؓ سے اویسی فیض تھا ان سے بھی سلسلہ بسطامی چلا ۔سخی سلطان باہوؒ کو بھی حضور پاک ﷺ سے اویسی فیض تھا۔راہ سلوک میں کچھ منازل پانے کے بعد آپ اپنی والدہ کے بے حد اصرار پر حضرت عبد الر حمٰن ؒسے بیعت ہوئے جس کی آپ کو ضرورت نہ تھی آپ لوگوں کو بھی بغیر دست بیعت کے فیض پہنچاتے اور نظروں سے مسلمان بناتے اور اللہ تک پہنچاتے ۔اگر کسی کو کسی کامل سے قلب اور سینے کا روحی فیض ہو جائے تو وہ خود بخود اس کے سلسلہ میں پیوست اور ولایت میں ضم ہو جاتاہے۔

 

نمازِ حقیقت اور نمازِ صورت میں فرق

نماز صورت کا تعلق زبان سے ہے۔بہتر(72)فرقے والے یہی نماز پڑھتے ہیں۔خوارج بھی،منافق بھی اور جن پرعلمائے اسلام نے کفر کا فتویٰ دیا وہ قادیانی بھی یہی نماز پڑھتے ہیں۔حتیٰ کہ کافر جاسوس بھی ایسی نماز پڑھ پڑھا کر چلے گئے۔حضور پاک ﷺ کے زمانے میں ایک پری نے شیطان کو بھی نماز پڑھتے دیکھا تھا۔اگر ایسی نماز جنت کی کنجی ہے تو پھر سارے ہی جنتی ہوئے۔جبکہ حدیث شریف میں ہے کہ ’’ ایک فرقہ صحیح اور جنتی ہو گا۔‘‘

نماز حقیقت کیا ہے۔ اس کا ملنا بہت مشکل ہے۔اور اس کو صرف اہل دل پا سکتے ہیں۔نماز حقیقت کیلئے تین(3) شرطیں ہیں۔ایک کی بھی کمی سے نماز نا مکمل ہے۔

اول: زبان اقرار کرے زبان سے ادائیگی ہو کیونکہ کافروں کی زبان اقرار نہیں کرتی۔
دوئم: قلب تصدیق کرے یعنی زبا ن کے ساتھ ساتھ قلب بھی نماز پڑھے یا صرف دوران نماز قلب اللہ اللہ کرتا رہے کیونکہ منافقوں کے قلب تصدیق نہیں کرتے۔دوران نماز قلب اللہ اللہ تب کرے گا جب دل کی ہر دھڑکن کو اللہ اللہ میں تبدیل کر لیا جائے جسے ذاکر قلبی کہتے ہیں۔
سوئم: جسم بھی عمل کرے یعنی نماز پڑھنے کے ساتھ ساتھ رکوع و سجود کرے کیونکہ فاسقوں کے جسم عمل نہیں کرتے نما ز میں ایک اور کڑی شرط ہے کہ ہم اللہ کو دیکھ رہے ہوں یا اللہ ہم کو دیکھ رہا ہو ۔ظاہر ہے ہم اللہ کو نہیں دیکھ رہے اور اللہ بھی ہمیں نہیں دیکھتا کیونکہ حدیث شریف میں ہے کہ
ان اللہ لا ینظرا لی صور کم ولا ینظر الی اعمالکم ولکن ینظر الی قلوبکم و نیا تکم( بحوالہ نور الہدیٰ صفحہ 60)
ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ نہ تمہاری صورتوں کو دیکھتا ہے اورنہ تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے وہ تو تمہارے قلبوں اور نیتوں کو دیکھتا ہے۔‘‘
بے شک ہمارے اعمال صالح ہیں۔ لیکن جس قلب پر اللہ کی نظر پڑتی ہے وہ تو سیاہ ہے ،لوگوں نے دیکھا نمازی ہے لیکن اللہ نے قلب سیاہ کی وجہ سے نہیں دیکھا تو یہ نماز دکھاوا بن گئی جس کیلئے حکم الٰہی ہے کہ
ترجمہ:۔ ان نمازیوں کیلئے تباہی ہے جو نماز حقیقت سے بے خبر ہیں اور ان کی نماز دکھاوا ہے (سورۃ الماعون آیت 6-5-4)

زبان کا تصرف عالم نا سوت میں ہے ۔بی بی سی لندن سے آواز پاکستان بلکہ اس سے بھی دور پہنچی ہے زیادہ زبانی عبادت سے زبان میں شیرینی اور اثر آجاتا ہے۔ ا س کی تقریروں اور وعظوں پر دنیا عش عش کرتی ہے۔بہت زیادہ عبادت اور ورد و وظائف سے ایک قسم کی ولایت مل جاتی ہے جس کا تعلق مخلوق اور اس کے درمیان ہوتا ہے۔لیکن مرنے کے بعد یہ ولایت مخلوق میں ہی رہ جاتی ہے اور وہ خالی ہاتھ جاتا ہے۔قلب کا تعلق عرش معلیٰ سے ہے۔جب یہ یہاں گو نجتا ہے تو اس کی آواز عرش معلٰی میں پہنچتی ہے قلب کی زیادہ عبادت سے قلب میں نرمی اور شیرینی پیدا ہو جاتی ہے۔جس پر اللہ تعالیٰ عش عش کرتا ہے۔ قلب کی دائمی عبادت سے دوسری قسم کے ولایت بھی مل جاتی ہے جس کا تعلق خالق اور اس کے درمیان ہوتا ہے اور مرنے کے بعد یہ ولایت ساتھ جاتی ہے اور وہی قلب اس نماز کو عرش تک پہنچانے کا ذریعہ ہے۔اور وہی نماز پھر مومن کی معراج ہے ۔ایسی نماز اگر پورے دن میں دو رکعت بھی میسر آجائے تو پھر بھی بخشش کی امید ہے۔ نماز صورت دن رات پڑھتا رہے تب بھی رب سے دور ہی ہے۔
مجدد الف ثانیؒ فرماتے ہیں (نماز حقیقت خاصان خدا کیلئے ہے ۔عام کو بھی اس کے حصول کی کو شش کرنا چاہیے کیوں نہ چین تک جانا پڑے)۔
تبھی تو حدیث میں ہے کہ’’ دل کی حضوری کے بغیر نماز قابل قبول نہیں۔ ‘‘
تشریح:۔لطیفۂ قلب بذات خود عرش معلی پر حا ضر ہو تا ہے یا لطیفئہ قلب کی آواز عرش معلٰی پر حا ضر ہو تی ہے ا ورنمازی زمین پر رکو ع و سجود میں !جیسا کہ معراج میں جب حضور پاک ﷺ حضرت موسیٰؑ کی قبر سے گزرے تو موسیٰؑ قبر میں نماز پڑھ رہے تھے۔اور آپ ﷺ جب فوراً عرش پر پہنچے تو دیکھا کہ موسیٰؑ وہاں بھی نماز پڑھ رہے ہیں ۔

%d bloggers like this: