تکونی مسجد (سوال و جواب) ھیرآباد حیدرآباد سندھ پاکستان 17 November 1992

سوال : جو لوگ اپنے نبی کو عطا کیے گئے اسم کا ذکر نہیں کرتے کیا وہ بروز قیامت اس امت میں شمار کیے جائیں گے یا نہیں ؟
جواب :اسکا جواب یہی ہے جی ہمارا تو ایمان ہے کہ جو بھی شخص کلمہ پڑھتا ہے بھلے کتنا بڑا گنہگار ہے بس منافق نہ ہو گستاخ نہ ہو کتنا ہی بڑا گنہگار ہے کلمہ پڑھتا ہے وہ حضور پاک ﷺ کے وسیلے سے بخشا ہی جائے گا یہ ہمارا ایمان ہے اسکے گناہ کی سزا شاید اس دنیا ہی میں دے دی جائے اسکو اگر پھر بھی زیادہ ہیں تو قبر میں دے دی جائے گی تاکہ وہاں سرخرو ہو اگر پھر بھی زیادہ ہیں تو کچھ عرصہ جہنم میں رکھ کے سزا دے دی جائے گی لیکن جانا اسکو جنت میں ہی ہے اب رہا سوال جنت میں تو وہ چلا گیا ادھر جنت کے سات (7 ) درجے ہیں جنت کے سات درجے ہیں ایک سے ایک اعلیٰ ہے تمہارے اندر سات مخلوقیں ہیں ہر مخلوق کا تعلق ایک ایک جنت سے ہے سب سے ادنیٰ عبادت قلب کی ہے اور قلب کا تعلق خلد سے ہے اب جنات ہیں صحابہ جن ہیں ولی جن ہیں لیکن وہ جنت میں نہیں جا سکتے کیونکہ جنت تو قلب والوں کیلئے ہے ان میں وہ قلب ہے ہی نہیں جنت کے باہر انکو مکان ملیں گے جنت کے باہر رہیں گے لیکن اب جو شخص جنت میں خلد میں چلا گیا دوزخ سے بچ گیا ادھر قرآن مجید فرماتا ہے کیا ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے ہم انکو نیکو کاروں کے برابر رکھ دیں گے اب وہ جو قلب کا عبادت کرنے والا تھا وہ خلد کا حقدار ہے اسکو خلد مل گئی خلد کی حوریں مل گئیں خلد کے مکان مل گئے اور یہ جو کچھ بھی نہیں کرتا تھا یہ بھی اسی طرح بخشا گیا تو یہ اسکا جا کے غلام بن گیا کتنا پچھتائے گا کاش یہ قلب مجھ میں تھا اگر میں بھی اسکی عبادت کرتا آج اس جیسا ہو جاتا غلاموں کو تو حوریں نہیں ملتیں ایک حدیث شریف میں ہے کہ جنتیوں کو اگر کوئی افسوس ہو گا جنت میں جا کے ۔ بھئی جنت میں چلے گئے پھر کیا افسوس ہے جنتیوں کو جنت میں جاکے جو افسوس ہو گا وہ یہی ہو گا کہ دنیا میں جو لمحہ بغیر ذکر اللہ کے گزرا جو ذکر نہیں کرتا تھا اسکو یہی افسوس ہوگا کاش میں ذکر کرتا ان جیسا ہو جاتا اور قلب والے کہیں گے کاش میں روح کا ذکر کرتا ایک درجہ اور ہوجاتا دارالسلام میں چلا جاتا روح والا کہے گا کاش میں سری کی عبادت کرتا ایک درجہ اور دارالقرار میں چلا جاتا ہر جنت والے پچھتائیں گے اور آخری والے کہیں گے کاش میں انا کی عبادت کرتا تو میں فردوس میں چلا جاتا یہ جنتیوں کے درجے کیلئے تمہارے اندر سات مخلوقیں ہیں اور باقاعدہ ان مخلوقوں کی تربیت ہے انکے ذکر علیحدہ ہیں کسی کا یا اللہ ، کسی کا یا حیی یا قیوم ،کسی کا یاواحد کسی کا یا احد کسی کا یاھو کسی کا کلمہ شریف یہ انکے ذکر ہیں اب انسان کے دماغ پہ ایک پردہ ہے جسکو خواب اکبر بولتے ہیں آپ کو کہا جائے آپ مری چلیں گے دو مہینے کیلئے چلیں جائیں تو آپ بندوبست کریں گے کھانے پینے کا پہننے کا کمبل کا کہ کہیں مجھے وہاں تکلیف نہ ہو لیکن جہاں ساری عمر کیلئے جانا ہے وہاں کیلئے کوئی بندوبست ہی نہیں ہے یہ دماغ یہ ایک حجاب اکبر ہے وہ کب پھٹتا ہے جب آدمی مرنے لگتا ہے جب مرنے لگتا ہے تو وہ شیطان کا حجاب تو شیطان ہٹا لیتا ہے اس وقت وہ آدمی کہتا ہے کاش اب مجھے موقع ملے کچھ کرکے دکھائوں اب تو موت کا وقت ہے اب تو کیا کرے گا ہاں حدیث شریف میں ہے کہ مرنے سے پہلے ہی مرجائو وہ کس طرح جب تم یہ ذکر کرو گے سینے کے پانچ ذکر ہیں پھر ایک نفس کا ذکر ہے چھ پھر ایک انا کا دماغ کا ذکر کرو گے جسکا یا ہو کا ذکر ہے یاھو کی گرمی سے وہ پردہ پھٹ جائے گا جیتے جی وہ پردہ پھٹ جائے گا وہ مرتے وقت ہوش آیا اب جیتے جی ہوش آگیا اس وقت دنیا کیلئے کم اور آگے کیلئے زیادہ کرو گے یہ حجاب اکبر ہے اور کوئی سوال جی ۔

سوال :حدیث میں آتا ہے کہ جس آدمی نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے تھوکا تو اسکے پیچھے نماز نہیں ہوتی یہ بات کہاں تک درست ہے آپ وضاحت فرمائیں ؟
جواب : یہ جو حدیث کی وہیں تھی خانہ کعبہ میں تھی یہاں تو نہیں تھی کیونکہ یہاں تو نہیں کہی انہوں نے وہاں کہی تھی ناں یہاں تو یہ ہے کہ مسجدیں ہیں یہ جو قرآن مجید پڑھتے ہیں لیکن اوپر پردہ ہے دوسری منزل ہے وہاں بھی آپ نماز پڑھ سکتے ہیں یہاں سے خانے کعبے تک تو پتا نہیں کتنے پردے ہیں جب خانے کعبے میں اگر کوئی ہو تو وہاں اسکی طرف منہ کرکے تھوکے گا تو واقع اسکی نماز نہیں ہوتی اب یہاں تو پتا بھی نہیں چلتا کسی کو خانہ کعبہ کدھر ہے اب یہاں تمہیں پتہ ہے خانہ کعبہ کدھر ہے یہاں ادھر ہو جائے گا وہاں ادھر ہو جائے گا۔

سوال : کئی جماعتیں علامہ اقبال ؒ کو برا کہتی ہیں اور شرابی بتاتے ہیں جبکہ آپکی انجمن کے لڑکے علامہ اقبالؒ کو ولی اللہ کہتے ہیں ؟
جواب :یہ تو واقعہ ہے آپ چوتھی کلاس میں پڑھتے تھے آپکی والدہ فوت ہو چکی تھیں انکے والد دو بھائی تھے انکے والد انکے لیئے پراٹھے پکا کے رکھ دیتے ایک ایک،ایک اس بھائی کیلئے ایک اس بھائی کیلئے کہ دوپہر کو آئیں گے وہ صبح ہی پکا کر رکھ دیتے کہ دوپہر کو آئیں گے کھائیں گے اس دن علامہ اقبالؒ آئے تو انکے پیچھے ایک کتیا جو تھی ناں وہ بھی پیچھے پیچھے آگئی انہوں نے دیکھا تو پہچان گئے کہ اسمیں کوئی مجبوری ہے جو میرے پیچھے پیچھے آرہی ہے تو کتے کو مجبوری بھوک کی ہو گی اور کیا مجبوری ہے جب وہ اپنے چوبارے کے اوپر چڑھنے لگے تو وہ کتیا نیچے بیٹھ گئی اور انکو بڑی حسرت سے دیکھنے لگی یہ اوپر گئے بھائی اور والد سے چوری جو اپنے حصے کا پراٹھا تھا آدھا کتیا کو ڈالا اور آدھا اپنے لیے رکھا کہ اسکو میں کھالوں گا لیکن وہ کتیا نے فوراً کھا لیا اسکے بعد بھی وہ آپکو دیکھنا شروع ہو گئی حسرت سے آپ نے سمجھا زیادہ ہی بھوکی ہے مجھ سے زیادہ بھوکی ہے اور وہ اپنے حصے کا بھی اسکو ڈال دیا وہ تو کھا کے چلی اور آپ سارا دن بھوکے رہے والد کو بھی نہ بتایا کہ وہ ماریں گے سارا دن بھوکے رہے پھر رات کو والد کو بشارت ہوئی تمہارے بیٹے نے ایک ایسا کام کیا جس سے ہم بہت خوش ہوئے اور ہم اللہ والے اسکو ولی بنوائیں گے یہ باقاعدہ ایک واقعہ ہے یہ بچپن کا واقعہ ہے پھر جوانی آپکی جیسے بھی گزری اسکے بعد پھر ایک اور واقعہ ہے جو آپ کا خادم تھا وہ آپکی خدمت کرتا وہ کافی بوڑھا ہو گیا آپکے وصال کے بعد اس نے یہ بات بتائی یہ بات عام ہے اس نے بتائی کہ ایک رات میں نے دیکھا کہ آپ اکیلے ہوئے تھے لیکن اس وقت دیکھا کہ ایک بزرگ بھی آپ کے پاس آئے ہیں میں حیران ہوا کہ دروازہ تو میں ہی کھولتا ہوں یہ کدھر سے آگئے بڑے غور سے دیکھا اب علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں کہ جائو دو گلاس لسی کے لے آئو میں کہتا ہوں اب ایک ڈیڑھ کا ٹائم ہے لسی اس وقت کہاں ملے گی دوکانیں بہت دور دور ہیں شہر سے بہت دور ہیں انہوں نے کہا نہیں تم لسی لے آئو کہتے ہیں کہ میں جگ لے کے باہر نکلا سوچنے لگا کہ لسی کہاں سے ملے گی سامنے گیا تو لائٹ جل رہی تھی دیکھا تو وہاں ایک لسی کی دوکان ہے اب میں سوچنے لگا یہاں روز آتا جاتا ہوں یہاں دوکان ہی نہیں تھی یہ ایک دم دوکان کیسے ہوگئی کوئی گاہک بھی نہیں میں انکے پاس گیا لسی تھی تو لسی دو میں نے پانچ روپے کا نوٹ دیا انہوں نے کہا نہیں یہ واپس لے جائو ہمارا اقبالؒ سے حساب چلتا ہے کہتے ہیں لسی دی انہوں نے پی وہ اندر باتیں کرتے رہے اور میں اس تاک میں کہ وہ بزرگ باہر نکلیں گے تو انکی قدم بوسی کروں گا لیکن نہ میں نے دروازہ کھولا نہ ہی مجھے ان بزرگوں کا پتہ چلا کہ کب نکلے اور کب گئے پھر وہ خادم کہتے ہیں کہ کئی دنوں کے بعدمیں انکی خدمت کر رہا تھا ہاتھ پائوں دبا رہا تھا تو پھر میں نے پوچھا کہ ایک تجسس ہے اگر یہ حل کردیں گے کہ اس دن وہ بزرگ کون تھے اور وہ لسی والے کون تھے کیونکہ اسکے بعد اور اس سے پہلے میں نے وہ لسی کی دوکان ہی نہیں دیکھی نابعد میں دیکھی نا اس سے پہلے دیکھی اب میرے دل میں یہی تجسس ہے آپ مجھے یہی بتا دیں بس اس وقت انہوں نے کہا وہ جو بزرگ آئے تھے وہ خواجہ صاحبؒ تھے اور جب انہوں نے لسی کی فرمائش کری تو داتا صاحبؒ نے لسی کی دوکان لگا لی کہ انہوں نے لسی کی دوکاں لگا لی کہ میزبانی تو میرا کام ہے یہ واقعات تو بڑے مشہور ہیں تو رہا سوال کہ ہم تو انکو ولی سمجھتے ہیں ٹھیک ہے وہ غوث قطبوں میں نہیں تھے لیکن وہ نقباء زنجبا ء میں ضرور تھے نقباء زنجباء اپنے آپکو چھپائے رکھتے ہیں انہوں نے اپنے آپکو چھپایا ہوا تھا ابدال تک اپنے آپ کو چھپاتے ہیں لیکن غوث قطب ظاہر ہو جاتے ہیں ابدال تک کسی کو مرید نہیں کرتے غوث قطب مرید کرتے ہیں ہاں جی۔

سوال :آپ کن سے بیعت ہیں ؟
جواب : پہلی بات ہے ہم تو سب سے پہلے گولڑہ شریف بیعت ہوئے انکے بچوں سے جو وہاں کے ولی تھے پیر مہر علی شاہ ؒ انکے بچوں سے بیعت ہوئے لیکن ہمیں حاصل کچھ نہیں ہوا تو ہم نے وہ بیعت توڑ دی دیول شریف سے بیعت ہوئے وہ بھی انکے پوتوں سے ان سے بھی حاصل کچھ نہیں ہوا تو ہم نے بیعت توڑ دی تو پھر ہم کو جو کچھ ملا بری سرکار ؒکے ذریعے ،داتا صاحب ؒکے ذریعے ،پھر سلطان صاحبؒ کے ذریعے ،پھر قلندر پاکؒ کے ذریعے پھر غوث پاک ؒسے تو غوث پاکؒ نے پھر ہمارا ہاتھ حضور پاک ﷺ کے ہاتھ میں دے دیا اب ہم کو حضور پاک ﷺ نے بیعت کر ہی لیا ہے اور جو لوگ حیات النبیﷺ کے قائل ہیں وہ اس بیعت کا ضرور اقرار کریں گے کہ صحیح ہوئی ہے اب لوگ کہتے ہیں کہ بیعت کے بغیر فیض نہیں ہوتا کہتے ہیں ناں بہت سے لوگ اس اویسی بیعت کو مانتے بھی نہیں ہیں اگر وہ مانتے نہیں وہ کہتے ہیں ظاہری بیعت ہو اگر وہ فیض ہے اویسی فیض اویسی بیعت فیض ہے ،تو فیض تب ہی ہے ناں کہ کہیں سے بیعت ہے تو فیض ہے بھئی اگر فیض ہے تو کہیں سے بیعت ہے ناں سخی سلطان باھو ؒ کو بھی حضور پاک ﷺ نے بیعت فرمایا تھا آپ نے لکھا ہے دست بیعت کرد مارا مصطفیٰ کہ مجھے حضور پاک ﷺ نے بیعت کر لیا ہے یہ اویسی سلسلہ ہے فقیر نور محمدؒ کلاچوی والے ہیں انکو سلطان صاحب ؒنے بیعت کیا ہے وہ ظاہر میں کہیں سے بیعت نہیں ہوئے اور انہوں نے لکھا ہے اپنی کتاب عرفان میں کہ میں سلطان صاحبؒ سے بیعت ہو گیا اب مجھے حاجت نہیں ہے کہ میں کسی اور کے پاس جائوں جب انہوں نے سلطان صاحبؒ کا لکھا ہے کہ مجھے حاجت نہیں ہے تو ہم حضور پاک ﷺ کیلئے کہتے ہیں ہم ہمیں کیا حاجت ہے کسی کے پاس جانے کی ۔

%d bloggers like this: