خصوصی نشست حضرت سیدنا ریاض احمد گوہر شاہی مدظلہ العالیٰ(سوال و جواب )
8 مارچ1998 آستانہ شاہ فیصل کالونی کراچی
اعوذبااﷲمن الشیطن الرجیم ، بسم اللہ الرحمن الرحیم عزیز ساتھیو اسلام وعلیکم ! اس سے پہلے ہزاروں خطاب ہوچکے پورے پاکستان میں شہر کراچی میں باہر ممالک میں بھی تقریباََ ہرشخص ان خطابات سے واقف ہی ہوگا۔اب چونکہ کچھ سازشی عناصر نے منفی پراپیگنڈا کیا ہواہے۔ کچھ مثبت پراپیگنڈا بھی کررہے ہیں۔ تو میرا خیال ہے کہ بجائے خطاب کہ اگر کچھ لوگ جو اُن کے دلوںمیں سوال ہوں وہ کرلیں تو زیادہ مناسب ہے۔اسکے لیے میںدعوت دیتا ہوں کہ جو بھی کسی کے دل میں کوئی بھی سوال ہے تو وہ بڑے آرام سے کرسکتا ہے پوچھ سکتا ہے۔
سوال:آپ صرف اسمِ اللہ کے ذکر کی بات کرتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ کے اور بھی بہت سے نام ہیں اسکی کیا وجہ ہے؟
اللہ تعالیٰ کے ننانوے (99 )نام ہیں، اٹھانوے صفاتی ہیں ایک نام ذاتی ہے۔ ایک لکھ چوی ہزار نبی (او) سب صفاتی اسماء والے تھے وہ سارے مل کر بھی اسمِ ذات والے کو پہنچ نہیں سکے۔(صفاتی) فرض کیا آپ یارحمن ُ کا ذکر کریں گے آپ اسکے رحم تک پہنچیں گے نا، (تو رحم تک ،) وہ تو جانوروں پر بھی رحم کرتا ہے ۔ آپ یا رزاق ُ کا ذکر کریںگے تو اُسکے رزق تک پہنچیں گے نا، تو کیا کمال ہوا ہے ، وہ توکیڑے کو پتھرمیں بھی رزق دیتا ہے ۔
(او) آپ اللہ کا اسم ذات کا ذکر کریں تو اسکی ذات تک پہنچیںگے نا۔ سارے نبی اسمِ ذات کو ترستے رہے ۔اگر دیدار ہے تو اسم ِذات میں ہے ۔اُن کو دیدار کیوں نہیں ہوا، اُنکے پاس اسمِ ذات نہیں تھا۔اسمِ ذات ملا ، حضورپاک ﷺکوملا، آپکو اسمِ ذات کے ذریعے دیدار ہوانا۔اور حضورپاکﷺ کے طفیل وہ اسمِ ذات اس اُمّت کو ملا ، تب اِس امّت کو فضیلت ہوئی نا۔صرف فرق اتنا ہے کہ اسمِ ذات اللہ کی اور اسکے حبیب کی مرضی کے بغیر ہو نہیں سکتا ہے۔جب یہ ہونہیں سکتا ہے ، تولوگ صفاتی اسم کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔اگر یہ ہو جائے تو سارے صفاتی اسماء اسی میں ہیں۔صرف اسمِ ذات میں سارے صفاتی اسماء (سمائے یا آئے) اس وجہ سے ہم زور دیتے ہیں کہ سب سے پہلے سیکھو کہ تمہارے اندرذاتی اسم آجائے ، اللہ سے ذاتی محبت ہو جائے ، ذاتی نام سے ۔اگر یہ نہیں ہوتاہے تو پھرکوئی بھی اسم لے لینا۔(ہاں جی اور)
سوال: آپ فرماتے ہیں کہ عشقِ الٰہی عبادت سے بہتر ہے جبکہ علماء کرام عبادت کی جانب مائل کرتے ہیں ۔ اور عبادت کی فضیلت ذیادہ بتاتے ہیں۔اگر عشق الٰہی افضل ہے تو یہ کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟
سخی سلطان باہوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں ’’جتھے عشق پہنچاوے ، ایمان کو بھی خبر کوئی نہ‘‘
(او) عبادت والے تو بہت پیچھے ہیں۔ ان سے آگے ایمان والے ہوتے ہیں ، تو وہ فرماتے ہیں کہ ایمان والوں کو بھی خبر کوئی نہیں ۔ عشق کیاہوتا ہے۔ محبت اور عشق میں فرق ہے اب تو اللہ اللہ کرتارہ، زبان سے نہیں وہ تو طوطا بھی اللہ اللہ کرلیتا ہے ۔ دِل سے ، اگر تیرے دِل سے اللہ اللہ شروع ہوگئی تو اللہ کا تعلق تیرے دِل سے ہے کوئی بھی چیزدِل میں آجائے اُس سے محبت ہوجاتی ہے۔ اللہ دِل میں آگیا ، اللہ سے محبت ہوگئی۔محبت ہے یہ عشق نہی ہے۔ دس بارہ سال جب بھی جی کرتا اللہ اللہ کرتا رہے تیرے دِل میں اللہ کی محبت آجائے گی، ساری محبتیں کٹ بھی جائیں پھر بھی یہ محبت ہے ، عشق نہیں ہے ، پھر ایک دن آئے گاجِس کا تو نام لیتا ہے وہ تجھے دیکھے گا، جِس دن اُس نے تجھے دیکھا (او) محبت اُڑگئی (۔۔) یہ عشق ہے نا۔تو جِس بندے کو اللہ دیکھ لے ، (او ) جِس کی عبادت کرتا ہے، وہی اُس کو دیکھ لے وہی کہہ دے تو میرا ہے ، یہاںعبادت کیا کام آئے گی۔عشق ہر کسی کے لیے نہیں ہے، جِس کو رب چاہتا ہے۔
سوال:آپ کا اصل مقصد اور مشن کیا ہے؟
کچھ لوگ کہتے ہیں، جب بھی سیاست کا زمانہ آتا ہے، کہتے ہیں یہ لوگ اب سیاست میں اُٹھیں گے۔لیکن ہم ایسی سیاست پر لعنت بھیجتے ہیں ، جو صبح اور کہو اور شام اور کہو۔اور نہ ہی ہم سیاست کو اچھا سمجھتے ہیں۔ نہ ہی دین میں ایسی سیاست ہے۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ یہ مہدیت کے چکر میں (ہے)۔کچھ کہتے ہیں کہ یہ نبوت کے چکر میں( ہے)۔ حضور پاک ﷺکے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور جو بھی دعویٰ کرے گا ہمارے نزدیک وہ کافر ہے۔رہا سوال ،کچھ لوگ کہتے ہیں یہ مہدیت کے چکر میں ہے۔اورہم کہتے ہیں کہ مہدیت جِس کو اللہ دے گا وہی مہدی ہوگا، ورنہ جو خود ساختہ ہوگا وہ ذلیل ہی ہوگا، اور ایسے ذلیل ہو کے چلے ہی گئے ہیں۔ہم نے یہی راز پایا ہے ، میں نہیں کہتا، پوری دنیا میں لوگ کہتے ہیں جو مسلمان مشائخ ہیں ، وہ کہتے ہیں کہ مہدی علیہ السلام آچکے ہیں۔اور ہمارے نزدیک جِس طرح حضور پاکﷺ کی پشت پہ مہر نبوت تھی ، جِس کی پشت پہ مہر مہدیت ہوگی کلمے کے ساتھ ، ہم اس کو مانیں گے، خواہ وہ کوئی بھی ہو۔
سوال:آپ کی بے انتہا مخالفت ہو رہی ہے ،کیاآپ خوف زدہ نہیں ہیں؟
مجھے تو پرواہ ہی نہیں ہے۔اسی طرح گھومتا پھرتا ہوں۔اس کی وجہ ہے مجھے تو نہ پیسے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ نے کافی کچھ دیا ہوا ہے ، زمینیں ہیں۔مجھے کسی کی مخالفت سہنے کی بھی ضرورت نہیں۔جب مجھے (میں)سیاست میں آتا ہی نہیں ہوں تو مخالفت سہنے کی مجھے کیا ضرورت ہے۔میں خاموش رہنا چاہتا ہوں۔بالکل ! separateرہنا چاہتا ہوں، لیکن ! ایک آسمانی ہاتھ ہے ۔وہ کہتا ہے نہیں یہ کہنا ،یہ کہنا ، یہ کہنا ۔میرا ایمان ہے ، جِن کامجھے حکم ہے ، وہ سب پہ غالب ہیں۔اس وجہ سے میرا کچھ بگاڑھ ہی نہیں سکتے تو پھر میں کیوں خوف زدہ رہوں۔(ہاں جی)
سوال : پچھلے دنوں حضرت عیسٰی علیہ السلام سے ملاقات کا بہت چرچہ ہوا تھا، کیا واقعی آپ کی ملاقات حضرت عیسٰی ؑسے ہوئی تھی؟
دیکھیں نا بہت سے لوگو ں نے کہا ، ہم حضور پاکﷺسے ملاقات کرتے ہیں اُن کے خلاف چرچہ کیوں نہیں ہوا، جب حضور پاکﷺ عیسٰی ؑسے افضل ہیں ۔بہت سے لوگوں نے کہا ہم اللہ سے بھی ملاقات کرتے ہیں، اُن کے خلاف چرچہ کیوں نہیں ہوا۔لیکن میں نے عیسٰی ؑ کا نام لیا تو کیا ہوا۔ملاقات ہوئی، میں نے ظاہری میں دیکھا ،پتہ نہیں وہ روحانی طور پہ تھے یا جسمانی پہ تھے۔میں نے تو نہیں کہا نا، وہ جسمانی ہیں یا روحانی ہیں۔میں تو ابھی خود مشکوک ہوں، پتہ نہیں وہ روحانی تھے یا جسمانی تھے۔ہا ں اگر دوبارہ ملاقات ہوئی توخوب ٹٹول ٹٹال کے دیکھوں گا نارہا ! یہ کہتے ہیں کے وہ بیت المقدس میں یا خانہ کعبہ میں ، وہاں اتریں گے ۔ میں نے اترنے کا تو نہیں کہا نا، میں نے تو صرف ملاقات کا کہا ہے ۔ (ہاں جی)
سوال:سنا ہے آپ ہندوئوں ،سکھوں، عیسائیوں میں بھی جا کر صرف ذکر قلب دیتے ہیں، جب کہ وہ مسلمان نہیں، غیر مسلموں کے دِل کس طرح اللہ اللہ کرسکتے ہیں ؟
آپ مجھے بتائیں جب حضور پاک ﷺ آئے تھے اس وقت کوئی مسلمان تھا؟یہی لوگ تھے نا،اِنہی لوگوں میں اُنہوں نے تبلیغ کری نا۔اِک دم تو انہوں نے نہیں کہا تم کلمہ پڑھو نماز پڑھو ۔بس اُن کا ایک طریقہ تھا۔اِن لوگوں کے قلبوں پہ نظریں ڈالیں،اِن کے اندر اللہ اللہ گئی۔تو پھر یہ لاالٰہ الااللہ محمدالرسول اللہ پڑھنے پہ مجبور ہو گئے۔اب ہم خواہ کوئی گنہگار ہو بہت بڑا گنہگار ہو خواہ بہت بڑا کافر ہو، ہم اُس کو کہتے ہیں کہ تو اللہ کا ذِکر کر دِل کی دھڑکن کے ساتھ کرہمارے کہنے سے نہی ہوگا اللہ کے حکم سے ہوگا۔اور جس کے اوپر اللہ کا حکم ہوگیا اس کے قلب نے اللہ اللہ کرنا شروع کردی۔وہ مسلمان نہیں تو کیا ہوگا۔آج نہیں ہے کل تو ہوجا ئے گانا۔(اَو) آج گنہگار ہے کل تو پرہیز گار ہوجائے گا نا۔تو اللہ تعالیٰ جس کو چاہے ۔اس کے آگے کوئی نہ ، چے مسلم چے کافر ، چے زندہ چے مردہ! وہ جس کو چاہے ، جس کو اپنا دوست بنانا چاہے، بنا لیتا ہے۔اور واقعات ہیں کہ بڑے بڑے کافر،بڑے بڑے ڈاکو ،اسکی نظروں میں آئے تو ولی بن گئے۔تو مسلمان کی بات کرتا ہے وہ تو ولی بن گئے۔یہ اُنہی کے،خواہ گنہگار ہوں یا کافر ہوں ،اُنہی کے دِل اللہ اللہ کرتے ہیں،جِن کو بعد میں مسلمان ہونا ہوتا ہے۔اور اس کا ریکارڈ ہے ۔(او)وِیڈیو دیکھو نا،ایک سال ان کو ذکر دے کے آئے،دوسرے سال وہ کلمہ پڑھ رہے ہیں ۔وہ کلمے پڑھ رہے ہیں ۔ایک طریقہ کار ہے ۔جس طریقے سے ہم ان کو ڈائریکٹ نہ قرآن کی بات کر سکتے ہیں نہ ہم ان کو نماز کی بات کر سکتے ہیں۔اُن کو قلب کی بات کرتے ہیں ۔ پھر آہستہ آہستہ قلب سے وہ زبان میں بھی آجاتے ہیں۔(ہاںجی اور)
سوال:آپ نے باطن کو صاف کرنے پر بہت زور دیا ہے ہم کس طرح باطن کوپاک صاف کر سکتے ہیں ؟
باطن بہت ضروری ہے ۔آپ یہاں ہندو ، سکھ ،عیسائی، مسلمان سب کو کھڑا کر دیں لائن میں۔اللہ کو کہیں کس کو دیکھنا چاہتا ہے کس کو دیکھے گا وہ نہ داڑھیوں کو دیکھتا ہے نہ سجدوں کو دیکھتا ہے ۔وہ چمکتے ہوئے دلوں کو دیکھتا ہے۔ہم کہتے ہیں، اگر تیرا باطن صاف نہیں،تو تجھ میں اور اس میں کیا فرق ہے؟ صرف زبان کا فرق ہے نا۔ہاں اگر تیرا باطن صاف ہے ،تب تو اس سے افضل ہے۔ورنہ زبانی ، زبانی تیرا دعویٰ ہے طوطے کی طرح۔اور باطن صاف کیسے ہوتا ہے؟ یہ دو طرح کی عبادت ہے، اِک ظاہر کو صاف کرتی ہے ،اِک اندر کو صاف کرتی ہے۔یہ نماز روزہ ظاہر کو صاف کرتا ہے ۔یہ بھی ضروری ہے۔لیکن ! وہ جو اندر ہے اُسکا بھی پاک ہونا ضروری ہے نا۔یہی وجہ ہے جب تک تمہارا اندر پاک نہیں ہوگا کوئی پاک چیز تمہارے اندر ٹھہرے گی نہیں۔تو دن رات قرآن پڑ ھتا ہے نماز یں پڑھتا ہے ۔تیرے اندر ٹھہرتی نہیں ہے۔تیرا نفس ناپاک ہے ۔ اور یہی وجہ ہے اگر نماز قرآن تیرے اندر ٹھہر جائے تو یہ فرقہ واریت کیا ہے۔پھر ایک دوسرے کو مسلمان کیوں ماررہے ہیں سارے مومن بھائی بھائی ہیں نا تو تُو مومن ہے ہی نہیں نا۔تو مومن بن تاکہ تم سارے ایک ہوجائو اور ایک ہونے کیلئے ، یہ تمہارا دل اللہ تعالیٰ کا گھر تھا ،یہ حدیث بھی کہتی ہے۔تم نے اللہ اللہ نہیں کیا اس دل میں ۔اس میں شیطان آکے بیٹھ گیا ہے۔اب جب تک اس شیطان کو نہیں نکالو گے نا تمہارا من صاف نہیں ہوگا۔تمہارا نفس پاک نہیں ہوگا۔اسکے لیے پھر قانون ہے ،(طریقہ) ہے۔جس طرح نماز روزے کے طریقے ہیں ،اس طرح قلبی ذکر کے طریقے ہیں نا۔جس طرح یہ تسبیح ٹِک ٹِک کرتی ہے ۔اِسی طرح اندر ایک تسبیح لگی ہوئی ہے۔وہ بھی ٹِک ٹِک کرتی ہے نا ۔ یہ جو تسبیح ہے یہ عام لوگوں کی ہے۔بلھے شاہ ؒ فرماتے ہیں، اساڈے دل دامنکااللہ اللہ کردا۔(او)ـ دل دے منکے نوں اللہ اللہ سکھانا ۔وہ جوٹِک ٹِک ہو رہی ہے وہ دل کی تسبیح ہے۔ وہ اِک گھنٹے میں 6ہزار، 24گھنٹے میں سوا لاکھـ سے بھی زیادہ اللہ اللہ کر لیتی ہے۔تو جس دل میں 24گھنٹے اللہ اللہ ہوتی ہو پھر شیطان تو نہیں آتا نا۔پھر شیطان جاتا ہے تو رحمن آتا ہے ـنا۔پھر جب اللہ اللہ ہوتی ہے اس دل کی دھڑکن کے ساتھ (او)ـدل کی دھڑکن کا تعلق خون سے ہے پھر اللہ اللہ میں جاتا ہے۔خون سے ہوتا ہوا نسوں میں ،نسوں سے( ہوتا ) ہواـ تمہاری روح تک پہنچ جاتاہے۔پھر روحیں بیدار ہو کے اللہ اللہ کرنا شروع کردیتی ہیںنا۔پھر تو سوتے رہنا روحیں اللہ اللہ کرتی رہیں گی۔کام کاج میں بھی اللہ اللہ حتٰی تو مر گیا تو قبر میں بھی اللہ اللہ اور یوم محشر تک اللہ اللہ ہوتی رہے گی۔(او)موت تجھے ہے ،روحوں کو موت تو نہیں ہے نا ۔(او)تو نمازی تھا تیری نماز مرنے کے بعد ختم ہوگی۔روحوں کی نماز ختم نہیں ہوگی۔وہ تو قیامت (پھر)نمازیں بھی پڑھتی رہیں گی ۔جو یہاں سکھایا وہی وہاں بھی کرتی رہیںگی نا۔اور اس کا واقعہ ہے۔جب حضور پاکﷺ شب معراج پہ گئے تھے۔تومعراج پہ جانے سے پہلے سب نبیوں ولیوں کی روحوں کو نماز پڑھائی تھی۔اگر تیری روح بھی اس قابل ہوجائے تو تجھے بھی وہ نماز حاصل ہوسکتی ہے نا۔وہ اتنے ہزار سال سے تھی ،قیامت تک وہ نماز رہے گی نا۔تو ہمارا مقصد یہ ہے اس جسم کے ساتھ اندر جو روحیں ہیں دل وہ بھی پاک صاف ہوجائیں نا۔جب تو اللہ اللہ کرتا ہے تیرا اندر بھی اللہ اللہ کرنا شروع کردے نا۔تو (اِک )ہے نقلی ہے ،تیرے اندر اصل ہے۔تو نقل کو اتنی اہمیت دیتا ہے ۔وہ جو اصل چیزیں ہیں جن کو آگے جا نا ہے۔جن کو موت ہی نہیں ہے۔ان کو اہمیت ہی نہیں دیتاہے۔وہ تیری محتاج ہیں ۔تو خود بھی اللہ اللہ کر ان کو بھی اللہ اللہ سیکھا۔اگر تو نے ان کو اللہ اللہ سکھادیا۔تو یقین کر قیامت تک تیراصدقہ جاریہ ہو ہی گیا۔اللہ (ہاں جی اور)
سوال:آج کل صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ میرے کچھ عزیز دوسرے ممالک میں بھی ہیں۔وہاں پر بھی شہرت ہوچکی ہے کہ گوہرشاہی نے مہندی ہونے کادعوٰی کردیا ہے۔آج آپ سے ملاقات کا موقع مل گیاہے۔آپ بتائیں گے کہ مہندی کا کیا معاملہ ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:میں نے تو واضع کردیانا،جومہدی ہوگا وہ کچھ دکھائے گا نا کرتب۔ایسے کرتب دکھائے گا جیسے دوسرا دکھا ہی نہیں سکے گا۔ہر مذہب والا مجبور ہوجائگانا اُسکو ماننے کے لئے ۔اگر یہاںکوئی پاکستان میں کہتا مہدی ہوں۔انگلینڈ،یورپ میں فلسطین میں کوئی اُسکو نہیں مانتا تو وہ مہدی نہیں ہے ۔مہدی وہ ہے جس کو ہر شہر والا ہر ملک والا مانے گا۔ہر مذہب والا مانے گا۔وہ مہدی ہوگا۔رہا سوال ہمارے لوگ کہتے ہیں آپ ان سے پوچھو وہ کیوں کہتے ہیں۔جب ہم ان سے پوچھتے ہیں تو نے کیوں کہا ہم کو مہدی۔ہم کو پھسانا چاہتا ہے۔وہ کہتا ہے وہ کہتا ہے ہمیں تم سے ہدائت ہوئی ہمارا مہدی تم ہوبس۔لیکن یہ مہدی تو نہیں ، مہدی وہ ہے جس کو پوری دنیا مانے گی۔وہ کوئی اور ہی ہوگا۔
سوال:بے شمار خطابات میں آپ نے شریعت محمدی اور شریعت احمدی کے بارے میں فرمایا ہے۔تو آپ ذرہ مزید تفصیل بیان کریں کہ یہ کن لوگوں کو ملتی ہے۔
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:شریعت محمدی، حضورپاکﷺ کے جسم مبارک کا نام محمد ﷺہے۔آپکی روح کا نام احمد تھا۔آپﷺ کا یہ جو center والالطیفہ اخفٰی،اُس کا نام حامد تھا۔آپکے سر میں لطیفہ اَنا اس کا نام محمود تھا۔اب شریعت محمدی آپ ﷺ کے جسم نے جو کام کیئے، وہ شریعت محمدیﷺہے۔آپ ﷺکی جو روح نے کام کیئے،وہ شریعت احمدی ہے۔ایک دفعہ آپﷺ جسم سمیت معراج پہ گئے، باقی جب آپ ﷺجاتے رہے تو روح کے ذریعے جاتے رہے نا۔وہ شریعت احمدی ہے نا۔آپﷺ کی روح پہلے بھی نمازیں پڑتی تھی۔آپ کے آنے سے پہلے بھی۔تب آپﷺ نے کہا تھا نا، میں اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی نبی تھا۔آپﷺ فرماتے ہیں میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم ؑکو بنایاہی نہیں گیاتھا۔جسم تو بعد میں آیا تھا نا۔وہ جو پہلے نبی تھے وہ جو کام کرتے رہے وہ شریعت احمدی تھی نا۔وہ ابھی بھی آپﷺ کی روح نماز پڑھاتی ہیں۔وہ اس وقت تک سر نہیں اٹھاتے جب تک اللہ جواب نہ دے لبیک یا عبدی۔اگر تیری روح بھی اس قابل ہوجائے تو تجھ پہ بھی وہ شریعت احمد میّسر ہوسکتی ہے ۔(ہاں جی)
سوال :سنا ہے کہ آپ قرآن پاک کے 30نہیں بلکہ40پارے کہتے ہیں۔
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: ایک شریعت محمدی ہے وہ تو 30ہی ہیں۔(تو)شریعت احمدی ہے وہ کچھ اور علم ہے۔جس کے لیے حضرت ابوحریرہ نے فرمایا تھا،مجھے حضورپاک ﷺ سے 2 علم حاصل ہوئے۔ایک میں تمہیں بتادیا دوسرا بتاؤں تم مجھے قتل کردو۔یہ حدیث ہے باقاعدہ۔تو پھر وہ دوسرا علم کیا تھا۔وہ روحوں کا علم تھا نا۔جس طرح ! چلو تھوڑی بات لمبی کردیتے ہیں۔یہ جسم مٹی کا ہے یہ تمہیں تسلیم کرنا پڑے گا،یہ مر جا ئے گا۔یہیں رہ جائے گا، ختم ہو جائے گا۔آگے بھی یہ نہیں جائے گا۔آگے جو جسم ملے گا دوسرا جسم ملے گا۔نہ جلے گا ،نہ مرے گا،نہ بڈّھا ہوگا،نہ بیمار ہوگا۔جب اس کو یہیں رہنا ہے۔تو پھر آگے بھی نہیں جانا اِسکو۔تو پھر اس کا حساب کتاب کیا۔اسکے منازل کیا۔سوچنے والی بات ہے نا۔یہ ایک مکان ہے، اِس کے اندر 7 بندے رہتے ہیں۔(اِک)بندہ جس کا نام نفس ہے، لطیفہ نفس اُسکو بولتے ہیں۔نفسانی لوگوں کے لیے پورا قرآن مجید آیا۔جگہ جگہ لکھا ہے نفس کو پاک کر اسکی اصلاح کر۔کبھی اسکو ڈرایا گیا کبھی اسکو لالچ دی گئی ،کبھی دوزخ بتایا گیا کبھی بہشت۔یہی بات ہے نا۔یہ نفس کے لیے ہے جب یہ نفس پاک ہوجاتا ہے پھر آگے کیا ہے۔پھر جب نفس پاک ہوجاتا ہے پھر وہ باطن کا علم شروع ہوتا ہے۔وہ پہلا علم پھر قلب کا ہے ۔نفس پاک ہونے کے بعد ،اُس وقت ذالک الکتاب لاریب ھذاالکتاب نہیں۔ذالک الکتاب وہ کتاب جس میں کوئی شک نہیں ہے۔اِسکے اوپر تو ہندؤبھی شک کرتا ہے کافر بھی شک کرتا ہے نا۔وہ اس قرآن پہ شک کرتے ہیں نا۔تو اس کتاب پہ کافر بھی شک نہیں کرتا۔اگر کافر کا بھی نفس پاک ہوجائے۔تو وہ بھی اُس پہ شک نہیں کرے گا نا۔(پھر جو)اِسکے 30حِصے یہ ہیں 10حِصے وہ ہیں ۔یہ جو قلب ہے ۔اِس کا علم یہ قلب کی نبوت آدم ؑکو ملی تھی۔آدھی اُن کے لیے آدھی اُن کے ولیوں کے لیے۔پھر آگے روح ہے۔پھر روح کی کتاب شروع ہوجاتی ہے۔اُسکے پارے ہیں۔ابراہیم ؑکا روح کی وجہ سے مرتبہ آدم ؑسے بلند ہوا۔پھر آگے موسٰی ؑ تھے۔موسٰی ؑآگئے اُن کو سِری کے یہ 3حِصے مِلے۔آدھے اُنکے لیے آدھے اُنکے ولیوں کے لیے۔انکا درجہ حضرت ابراہیم ؑسے اسکی وجہ سے بلند ہوا نا۔پھر عیسٰی ؑ کو 4،آدھے اُنکے لیے آدھے اُنکے ولیوں کے لیے۔اُنکا درجہ موسٰی ؑ سے تب بلند ہوا نا۔پھر حضورپاکﷺکو پانچوں کا علم حاصل ہوا نا۔اخفٰی کاعلم۔تب آپ کا درجہ سب سے زیادہ ہوگیا نا۔اب اِک نفس ہے،اور پانچ یہ ہیں۔ یہ 6، یہ علم میں ہیں۔نفس کاعلم 30ہے۔باقی 5کا علم 10حصوں میں ہے۔اُسکے بعد یہ آگے جاتا ہے (اَنّا)ساتواں لطیفہ ، اِس کا تعلق علم سے نہیں اِس کا تعلق عشق سے ہے۔یہ کسی (کوئی) روحانی استاد کو پکڑو تمہیں پتا چلے کہ ظاہری بھی علم ہے اور باطنی بھی علم ہے۔ہم کہتے ہیں کہ 30حصے ظاہر میں ہیں اور10حصے باطن میں ہیں اور باقاعدہ اِسکے ثبوت ہیں۔ولیوں کی کتابوںسے ملتے ہیں۔اور یہ علماء کہتے ہیں ،اِس کو رد کرتے ہیں۔اِس علم کو رد کرتے ہیں اور یہ، یہ واقع سناتے ہیں، شاہ شمس تبریزکا۔کہ جب انہوں نے کتابیں ڈالیں تو پوچھا اِیں چیست، انہوں نے کہا اِیں آں علم است کہ تو نمے دانی۔ جب انہوں نے باہر نکالیں تو پوچھا اِیں چیست ، اِیں آں علم است کہ تو نمے دانی! ایک وہ علم ہے جس کو وہ نہیں جانتے تھے۔انہوں نے کہا یہ علم جو تو نہیں جانتا ۔ یہی وجہ ہے نا اگر صرف قرآن مجید ہی کافی ہے توپھر غوث پاک نے بھی قرآن مجید پڑا تھا نا۔خواجہ صاحب نے بھی پڑا تھا نا۔تو پھر کس علم کے لیے جنگلوں میں چلے گئے تھے۔پھر جنگلوں میں کوئی اور علم تھا نا۔یہاں مولوی صاحب پڑھاتے ہیں تو وہاںحضورپاکﷺپڑھاتے ہیں۔ تو مولوی کے اور حضورپاکﷺمیں فرق ہوگا نا،پڑھانے میں۔یہاں عالم بن جاتا ہے،شیخ الحدیث بن جاتاہے، وہاں ولی اللہ بن جاتا ہے۔ وہاں سلطان بن جاتا ہے ۔ولی اللہ بن جاتا ہے۔ (جی ہاںاور)
سوال:مختلف بورڈ پڑھنے کا اتفاق ہواکہ آپ کا فرمان اِس صورت میں لِکھا ہے کہ دیدارِ الٰہی ہوسکتا ہے۔اِسکے دلائل کیا ہیں؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:امام ابوحنیفہ نے فرمایاہے کہ میں نے۹۹مرتبہ رب کادیدارکیا،انکی کتاب میں لکھاہواہے۔ابراھیم بن ادھم فرماتے ہیں کہ میں نے ۷۰ مرتبہ رب کودیکھا ہے۔سخی سلتان باھوفرماتے ہیں کہ جب جی چاہے رب کو دیکھ ُلوں۔حضور پاکﷺکی تو بڑی بات ہے نا۔باقی سب نے روحوں کے زریعے دیکھا ہے، حضور پاکﷺنے اِس جسم کے زریعے دیکھا ہے نا۔ اب جو کہتے ہیں، ولی اللہ! ولی اللہ کا مطلب ہے اللہ کا دوست۔ تو دوست وہی ہوتا ہے نا،ایک دوسرے کو دیکھا ہو، باتیں کی( ہوئیں)۔ نہ دیکھا ہے نہ باتیں کریں، کہتا ہے میں ولی اللہ ہوں، جھوتا ہے نا۔ اگر(تو جو) صرف نبوّت کادعوٰی کرتا ہے، جھوٹی(۔۔۔۔۔۔۔)تو اُس کو کافر کہتا ہے۔ تو جو ولائیت کا جھوٹا دعوٰی کرتا ہے اُس کو کیا کہے گا؟ وہ کفر کے نزدیک پہنچ جاتا ہے۔ ولائیت کے لئے ضروری ہے کہ اُس کے اُوپر الہام ہو، اور اُس کا دیکھا ہُوا ہو۔صرف یہ ہے کہ عورتوں کو صرف اِلہام ہوتے ہیں، وہ دیکھ نہیں پاتیں رب کو۔ اِس وجہ سے وہ آدھی رہ جاتی ہیں۔ رابعہ بصری کو تب آدھی قلندر کہا گیا۔باقی جو ولی ہوتے ہیں وہ تو رب کو دیکھتے بھی ہیں، باتیں بھی کرتے ہیں۔ اِسکے بغیر کوئی کہے کہ میں ولی ہوںتو پھر وہ جھوٹا ہی ہے۔
سوال: آپکے چاہنے والے آپ کو اللہ کہتے ہیں! اِسکی کتنی حقیقت ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:(مسکراتے ہوئے) حقیقت اِتنی ہے، بہت سے نا چاہنے والے ہم کو شیطان کہتے ہیں(نعوذبااللہ)۔ بہت سے ہم کو مرتد کہتے ہیں(نعوذبااللہ)۔بہت سے کافر کہتے ہیں(نعوذبااللہ)۔ بہت سے مہدیؑ کہتے ہیں۔بہت سے عیسیٰ ؑ کہتے ہیں۔یہ جِس کا جتنا جتنا عقیدہ ہے۔اُتنا ہی کہتا ہے ۔اِن سے پوچھو میں نہیں کہہ سکتا۔میں مسلمان ہوں۔قرآن پہ عمل کرنے والا ہوں۔وہاں تو لکھا ہے قُل ھُواللہ احد اللہ ایک ہے۔نہ اُس نے کسی کو جنا۔میراتو ماں باپ بھی ہے اور بیٹے بھی ہیں۔آگے یہ کہتے ہیں تو ان سے پوچھواِن پہ فتوے لگاؤ۔(ہاں جی)
سوال:اگر کسی شخص کا انتقال آپ سے ذکرِ قلب لینے کے کچھ عرصہ بعد ہو جاتا ہے،تو اُسکی باقی منزل کے بارے میں کیا ہوگا؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:پہلی بات ہے کہ یہ ذکرِ قلب اپنی مرضی سے نہیں چلتا ہے۔ہم تو ایجنٹ ہیں،بتانے والے ہیں ۔آگے جس کووہ چاہتا ہے ،اسکے ساتھ لگتے ہیں۔اس میں جب تک حضور پاکﷺ تصدیق نہ کریں، اس وقت تک اللہ تعالیٰ منظوری نہیں دیتا ہے۔تو جس کی منظوری ہو جاتی ہے قلب کی تو پھر(وہ)زندہ ہے یا مردہ ہے اسکی منزل چلتی رہتی ہے۔اللہ ! (اَو)جسم مردہ ہوا ہے اندرتو مردہ نہیں ہوا نا۔اور ایسے لوگوں کا ریکارڈ ہے ۔یہ شاہ لطیف بھٹائی! لوگ ان کو یہی کہتے تھے کہ صوفی شاعر ہیں،صوفی شاعر ہیں۔کوئی دربار سے فیض نہیں تھا۔لیکن یہ چِلے کرتے رہے ہیں،اِن کا سلسلہ چل رہا تھا۔جب باطن میں سلسلہ مکمل ہوا، دربار سے فیض ہونا شروع ہوگیا۔ایسے لوگوں کی تکمیل ہوتی رہتی ہے۔
سوال:تصویر کشی کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟کیا تصویر کھینچوانا حرام نہیں ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:مقصد یہ ہے کہ کچھ لوگ تو کہتے ہیں حرام ہے،کچھ کہتے ہیں حرج نہیں ہے ۔کچھ ولیوں نے بھی ہم کو اُلجھایا۔جب اللہ نے اُلجھایاہوا ہے تو ولیوں کا اُلجھادینے میں کیا ہے۔اعلٰی حضرت نے ایک جگہ لکھا ہے کہ تصویر حرام ہے ۔کہا ہے نا؟ اعلٰی حضرت کے زمانے میں پیر مہر علی شاہ ؒکی تصویریں عام تھیں،اُن کوکیوں نہیں کہاکہ یہ حرام ہیں۔اعلٰی حضرت نے اپنے ہی کنزالایمان میں لکھا ہے،وہ جو تابوتِ سکینہ ہے ،اُس میں سب نبیوں کی تصویریں ہیں۔ہم پھر کیا کہیں؟اب تمہاری اپنی مرضی ہے ،حرام سمجھو یا جائز سمجھو!
سوال:اگر امام مہدیؑ اور عیسٰی ؑ کی آمد ہوچکی ہے تو لوگوں کو بھی دِکھائیے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:لوگ دیکھیں گے نا۔پہلے بتا ہی چکا ہوں نشانیاں۔گھڑی گھڑی نشانیاں(۔۔۔۔)
سوال:اگر کوئی ذاکر ذکر کے بعد قلب پر نگاہیں جمائے اور اُسے قلب کی جگہ نُورنظر آئے ،نُور کے درمیان خانہ کعبہ نظر آئے اور ساتھ باطنی مخلوق طواف کرتی نظر آئے ۔اس میں اِس قسم کی کیفیت کے ساتھ دل پر پورا کلمہ سنہری چمکتا ہوا نظر آئے تو کیا اِن معاملات کو عین الیقین کی منزل کہا جائے گا؟وضاحت فرمایئے!
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:عین الیقین نہیں یہ حق الیقین ہے۔کیوں کہ یہ استدراج کلمے میں نہیں ہوتاہے اگر کلمہ ہے تو صحیح ہے۔اگر کلمہ نہیں ہے تو پھر عین الیقین ہے نا۔اگر کلمہ ہے تو پھر یقین ہی یقین ہے۔اور ایسا ہوا ہے۔مجدد صاحب نے ایک دفعہ دیکھاہے کہ باطنی مخلوق اُن کو سجدہ کررہی ہے۔تو بڑا پریشان ہوئے،سجدہ تو جائز ہی نہیں ہے۔آواز آئی گھبرائو نہیں ،یہ تمہیں سجدہ نہیں کررہے ،وہ جو تمہارے اندر خانہ کعبہ بس گیا ہے یہ اُس کو سجدہ کررہے ہیں۔ہوتا ہے جِس کو رب چاہے۔
سوال:آپ لوگ پہلے ذِکر الٰہی کا پرچار کرتے تھے۔آپ کی تبلیغ ذکرِقلب تھی۔پھر روحانیت کی بات کرنے لگے۔کچھ عرصے سے آپ امام مہدی ؑ کی تشہیر کررہے ہیں،اِس کے بعد اب آپ کا کِس چیز کی تشہیر کا ارادہ ہے؟آپ کیا چاہتے ہیں؟کیا سیاست میں بھی آنے کا ارادہ ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:پہلے جواب دے چکا ہوں مکمل اِن باتوں کا۔
سوال:واحدۃ الوجود اور واحدۃ الشہود سے کیا مراد ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:یہاں واحدۃ الوجود والا کوئی بندہ ہی نہیں ہوگا،کیا بتاؤں؟ واحدۃ الوجود والا کہتا ہے کہ اللہ تعالٰی ہر چیز میں ہے،وہ کہتا ہے اللہ تعالٰی ہر دِل میں ہے۔کہتا ہے نا۔ واحدۃ الشہود والا کہتا ہے، اگر اللہ تعالٰی ہر دِل میں ہے تو اِس میں کفار بھی شامل ہیں ۔تو پھر یہ دوزخ کس کے لیے ہے؟ اگر اللہ تعالٰی ہر چیز میں ہے تو دوزخ کس کے لئے ہے؟جس میں اللہ کا نُور ہے وہ تو دوزخ میں جائے گا نہیں ! واحدۃ الوجود والے وہ ہیں ،جِنہوں نے یا رحمن ُ کا ذکر کیا۔ہر وقت یا رحمن ُ کرتے رہے یا یاودودُ کرتے رہے۔یا رحمن ُ سے ان کے دل میں جو نُور آیا نا ،یا رحمن ُ کا صفاتی نُور آیا۔اُنہوں نے اپنی نگاہ سے دیکھا ! اُنہوں نے دیکھا کہ یارحمن ُ کی اِک جھلک جانور میں بھی نظر آتی ہے۔جِس کی وجہ سے اپنے بچوں سے پیار کرتا ہے۔اُنہوں نے کہا اللہ تعالٰی ہر چیز میں ہے۔واحدۃ الشہود والے کیا تھے؟ اُنہوں نے اسمِ ذات کا ذکر کیا ، اللہ اللہ کا ذکر کیا۔اللہ اللہ سے اُنکے دل میں اللہ کا نُور آیا۔جب اللہ کے نُور سے دیکھا تو اُنہوں نے دیکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ دُنیا میں نُور ہے ہی نہیں ہے۔(چند دِنوں میں) یہ واحدۃ الوجود اور واحدۃ الشہود کاجھگڑا ہے۔اور ہم واحدۃ الشہود کے قائل ہیں۔جِس کے دل میں اللہ کا ذاتی نُور ہے نا وہ واحدۃ الشہود ہے۔جِس میں ذاتی نہیں ہے ،وہ واحدۃ الوجود ہے۔واحدۃ الوجود والا جب اوپر گیا ،ایک مقام پر رُک گیا ، آ گے جا نہیں سکا۔جا نہیں سکا(تو) اُس نے کہا مجھے تو ایک روشنی سی نظر آئی ،اللہ کا کوئی جسم وغیرہ نظر نہیں آیا۔(اَو) واحدۃ الشہود والا اسم ذات والا تھا نا،وہ ذات کے پاس پہنچ گیا۔وہ حضور پاک ﷺ سے جا کے ہا تھ بھی ملا آیا۔تو اُس نے کہا کہ حدیث صحیح کہتی ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسان کو اپنی صورت میں (پہ)بنایا۔یہ واحدۃ الوجود ، واحدۃ الشہود کا یہ جھگڑا ہے۔
سوال:آپ کے آستانے پر پچھلے دِنوں کراچی کی ایک عورت کی موت کے ذمہ دار آپکو ٹھہرایا گیاتھا،کیا یہ سچ ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:پہلی بات تو یہ ہے ، وہ ہمارے آستانے میں آئی ، لوگ آتے جاتے رہتے ہیں ۔اُس کے ساتھ کوئی بھی نہیں تھا۔اسکا لڑکا چھوڑ کے آگیا، اکیلی تھی ۔اگر ہم اسکو مار سکتے تھے ، تو ہم اس کو کہیں دبا بھی سکتے تھے ۔ہمارے پاس اپنی زمین تھی ، اپنی گاڑیاں تھیں۔زمین میں دباسکتے ،کہیں پھینک کے آجاتے۔ہم اُس قتل شدہ عورت کو اسکے وارثوں کو کیوں دیتے؟ گھر میں بُلا کے کیوں دیتے؟ یہ لاش اُٹھا کے لے جاؤ۔ یہ کچھ سیاسی لوگ ہیں ،کچھ گورنمنٹ کی ایجنسیاں ہیں،جِنکی یہ پلانگ ہوئی ہے۔جِس طرح یہ منفی پراپیگنڈہ ہوا نا، کچھ عرصے بعد یہ مثبت پراپیگنڈہ بھی شروع کریں گے۔اِسکی تحقیق ہو رہی ہے، (تفتیش)ہورہی ، کرائم برانچ والے کررہے ہیں۔ پھر وہ کہتے ہیں ! اخباروں میں ہم پڑھتے ہیں کہ کوئی ایسا کام ہوا ، جو اُس نے دیکھا ، تب اُسکو ختم کردیاگیا۔بھئی جب وہ اکیلی تھی ، اُس نے کام دیکھا ، تو دوسروں کو اُس نے خواب میں آکے بتایا تھا؟ کہ میں نے یہ کام دیکھا، تب مجھے مار دیا ! اخبار والوں کو بھی شرم نہیں آتی ہے نا۔یہیں سے پکڑا جاتا ہے۔اُس نے (انکو/اندر)خواب میں آکے بتایا نا ! (ہاں جی اور)
سوال:امام مہدی ؑ ، عیسٰی ؑ کے تذکرے تو بہت آرہے ہیں، دجال کہاں ہے؟ اِس کے بارے میں کچھ فرمائیں۔
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:اگر میں نے ابھی کہا نا دجال فلاں جگہ ہے ، تو یقین کرو وہیں لڑائی شروع ہوجائے گی۔وقت کا انتظار کرو۔جو منجانب اللہ ہوگا، وہ زیادہ بہتر ہوگا۔دجال بھی دُور نہیں ہے، پاکستان کے نزدیک ہی ہے۔
سوال: آپ نے ا ل م کا راز کھولا ہے۔قرآن میں اور بھی حروفِ مقطعات ہیں۔ مثلاً : ا ل ر کا کیا رازہے ؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:ابھی نہیں کھول سکتے ۔
سوال: سلطان الفقراء کے بارے میں کہا جاتا ہے انہیں خدا کہو یا بندہ کہو ، دونوں صحیح ہیں۔یہ کیسے ہوسکتا ہے ،کوئی بندہ خدا بن جائے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:دراصل بات یہ ہے کہ جو تو انسان کے اندر لطیفے ہیں ، وہ ہیں ہی ہیں۔اگر انکے ذریعے وہ ولی بنتا ہے تو وہ خدا نہیں کہلاسکتا۔کچھ ولی ایسے ہیں ، جن کو اللہ تعالٰی اپنی طرف سے خاص انوار، جن کو جُسّہ توفیقِ الٰہی (وہ)بولتے ہیں، وہ دیتا ہے۔ کسی کو طفلِ نُوری دیتا ہے ، (اَو)اپنی طرف سے ۔تو پھر وہ بندے میں وہ بندہ نہیں ہوتا، پھر وہ اللہ ہی ہوتا ہے۔اُنکے لئے کہتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعے میرا اتنا قرب حاصل کر لیتا ہے کہ میں اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں، جس سے وہ پکڑتا ہے ۔میں اُس کی زُبان بن جاتا ہوں ، جِس سے وہ بولتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کے لئے ہے۔اور کچھ لوگ ایسے ہیں ! ایک دفعہ اللہ تعالٰی (نے/کو)خیال آیا کہ دیکھوں میں کیا ہوں؟کیسا ہوں میں؟ جیسے تم کو کبھی خیال آتا ہے، شیشے میں دیکھوں ، کیسا ہوں میں؟ اللہ کو بھی خیال آگیا کہ دیکھوں میں کیسا ہوں؟ تو سامنے عکس پڑا ، وہ عکس اِک رُوح بن گئی ۔اللہ اُس پہ عاشق ہوگیا، وہ اللہ پہ عاشق ہو گئی۔اللہ ! وہ حضور پاکﷺ کی رُوحِ مبارک تھی۔پھر اللہ تعالٰی نے خوشی سے ، پھر جُنبش (لی) ۔ اِدھر اُدھر گھُوما، تو سات اور رُوحیں بن گئیں، وہ سلطانوں کی رُوحیں تھیں نا۔وہ رُوحیں جب دُنیا میں آئیں تو پھر سخی سلطان باھُوؒ نے فرمایا ! اگر ان کو اللہ کہا جائے، تب بھی غلط نہیں ہے، اوہی، وہی رُوحیں ! اس کے لئے چاہو نا تو سخی سلطان باھُوؒ کا رسالہ رُوحی شریف ہے۔اس کا مطالعہ کرو تو زیادہ مطمعن ہو جاؤ گے۔
سوال:گستاخی معاف! عرب ممالک میں گُناہوں کا انبار ہے ، اور آپ سب جگہ جاکرذکر قلب کی دعوت دیتے رہے، تو ذکر قلب کی دعوت آپ اُن میں کیوں نہیں دیتے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: نہیں ! یہ تو ہم ہر جگہ جاکر دیتے ہیں۔عرب میں بھی گئے، لیکن وہ جِن کو اللہ چاہتا ہے ، اُن کے دلوں میں اللہ اللہ شروع ہوتی ہے۔جِن کو وہ نہیں چاہتا ، ہم پلٹ کر اُدھر جاتے ہی نہیں ہیں۔جِن کو چاہتا ہے تو ہماری ہمت بڑھتی ہے، تو (اور) اُدھر چلے جاتے ہیں۔
سوال: سرکار لوگ کہتے ہیں۔آپ اگر حق پر ہو تو آگ میں آجاؤ۔آیا ہم ایسا کریں یا نہیں؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: نہیں ! وہ میرے سے معاملہ رکھو ، جِتنے بھی مخالف( ہیں ) اُنکو بھی اکٹھا کرو مجھے بھی اکٹھا کرو ۔بھئی جو مخالف ہیں میرے! تمہیں کیا تعلق ہے! میرے سے تعلق ہے۔مخالفوں کو اکٹھا کرو نا۔تو (مجھ) بھی اُن میں ڈالو ، اُنکو بھی آگ میں ڈالو ۔ دیکھو کون بچتا ہے کون جلتا ہے؟ جِتنے مولوی فتوے لگائے ہوئے ہیں سب کو لاؤ۔آگ(سلگاؤ)اُن کو بھی ڈالو ، مجھے بھی ڈالدو۔
سوال:شاھی صاحب! میں آپ سے براہِ راست سوال کرنا چاہتا ہوں۔کیا اسکی اجازت ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:ہاں بتائیں!
سوال: اسلام علیکم!آپ سے کئی سوال ہیں۔لیکن آغاز میں ایک سوال کرتا ہوں جو اب تک اس محفل میں نہیں ہوئی آپ سے، وہ متعلق ہے آپکی چاند میں تصویر کے حوالے سے۔بہت اس کا چرچہ رہا۔مختلف لوگ سنتے رہے ہیں۔سوال آج نہیں ہے ۔لہٰذا میں کر رہا ہوں۔ہم آپ کو آج ، موجودہ جو شکل ہے آپکی ، اِس شکل میں ہم آپ کو دیکھ رہے ہیں۔اور یقینا اِس شکل میں ارتقاء وجود میں آیاہے۔اور آئیندہ جاکے مختلف اور رُوپ دھارے گا۔تو چاند جوہے ہمیشہ سے اپنے رُوپ میں موجودہے۔لیکن آپ یہ کہتے ہیں ۔اُس میں جو شبیہہ ہے وہ آپکی ہے ۔جبکہ روز اوّل سے وہ شبیہہ موجود ہے ۔اور روزِ آخر تک وہ ایسا رہے گا۔تو آیا اُسکی دعویت کہاں تک حقانیت تک موجود ہے؟ ایک سوال یہ ہے اِس کا جواب مکمل ہوجائے تو دوسرا سوال کرتا ہُوں۔
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:اِس کا مجھے تو (یہی )پتہ ہے کب سے اِس میں صورت آئی ہے کب تک رہے گی۔
سوال کرنے والا: (یہ عمل کامل ہے کہ چاند پہلے دن سے آخر دن تک اپنی شکل میں قائم رہے گا۔)
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی:پہلے لوگوں نے کہا کہ یہ صورت نظر آتی ہے۔پھر جب میں نے دیکھی پھر اس کو! اگر یہ بات غلط ہوجاتی تو میری بیس سال کی جتنی بھی تبلیغ تھی سب پہ پانی پھر جاتا نا۔کمپیوٹر کے اوپر اِس کو پھر چیک کرایاہے۔اپنی تصویر بھی دی ۔یہ بھی دی۔انگلینڈ میں بھی چیک کرایا،امریکہ میں بھی چیک کرایا۔جب انہوں نے تصدیق کری ہے تب میں نے کہا یہ تصویر ہماری ہی ہے۔کیوں ہے کِس نے دی ہے! اِسکا ہم کو علم نہیں ، لیکن اتنا ہم کہہ سکتے ہیں کہ تصویر ہماری ہی ہے۔اسکے لئے چاند بھی ہر مہینے ہوتا ہے۔ابھی بھی ہوگا۔ہماری بھی تصویر کھینچو ، وہ بھی تصویر کھینچو ! کمپیوٹر میں دو۔اگر غلط ہوگی تو پھر ہم سے سوال کرنا نا۔اگر ہے تو پھر تسلیم کروناہے۔اگر نہیں ہے تو پھساؤنا ہم کو۔ہم تو حکومت کو بھی کہہ چکے ہیں اِسکو مانو نہیں! کئی دفعہ حکومت کو کہا اگر یہ غلط ہے تو بہت بڑا جھوٹ ہے فراڈ ہے تو ہم کو گرفتار کیوں نہیں کرتے ہو! اگر یہ صحیح ہے تو تسلیم کرو لوگوں کو بتاؤصحیح ہے۔تمہارے پاس وسائل ہیں نا اوریہ آج سے نہیں 5،6سال یہ شورشروع ہے نا۔(اِن ہوئی باتیں )اُن کے اوپر ہمارے اوپر اتنی پکڑ ہورہی ہے،مقدمے چل رہے ہیں، لوگ بہتان لگا رہے ہیںاگر یہ بات غلط ثابت ہوتی۔آج یہ مولوی ہم کو چھوڑ دیتے۔پہلے انہوں نے تسلیم ہی نہیں کیا کہ ہو ہی نہیں سکتی۔اب کہتے ہیں کہ یہ ہے لیکن یہ ولائیت کی دلیل تھوڑی ہی ہے۔اب یہ تسلیم کرتے ہیں۔
اور ہم بھی اِس چکر میں ہیں کہ کوئی اُٹھے اور اِس کی تحقیق کرے۔غلط ہے تو جو مرضی سزا دو، صحیح ہے تو تسلیم کرو، منافقت نہ کرو۔یہاں گورنمنٹ کی ایجنسیاں بھی ہوں گی ۔ہم ہر طریقے سے گورنمنٹ تک پیغام پہنچاتے ہیں، اخباروں کے ذریعے پہنچایا، تقریروں میں کہاآج بھی کہہ رہے ہیں کہ تحقیق کرو نا۔
سوال: ایک بات سُننے میں آئی ہے کہ آپکے جو انجمن سرفروشانِاسلام کے کارکن ہیں، اُنہیں آپ نماز کے سلسلے میں جب اجازت دیں تو، وہ نماز ادا کریں اور نہ اجازت دیں تو نہ ادا کریں! معاملہ اللہ اور اُسکے بندے کا ہے، تو فرض نماز کے متعلق آپ سے اِجازت لینا کہاں تک درست ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: یہ تو میں نے کبھی کِسی کو نہیں کہا۔ یہ ضرور کہتا ہوںکہ ذکر کرو ، نماز بھی پڑو۔اِس میں تمہاری ترقی ہوگی۔ اگر صرف نماز پڑھتے ہو تو ساری عُمر نمازی رہو گے بس۔ اگر صرف ذکر کرتے ہو ، نماز نہیں پڑھتے ہو، ساری عُمر ذاکر (رہو یا کہو) گے۔ جب یہ دونوں چیزیں مِلیں گی تو ولائیت شروع ہوگی نا۔ہم تو گھڑی گھڑی اِن کو کہتے ہیں۔ رہا سوال! نماز کا مُنکر ہمارے نزدیک کافر ہے۔
سوال: (شُکریہ)آخری سوال! ابھی جب میں یہاں آیاتو کُچھ میوزک کا نظر آیا،(یعنی) میوزک بج رہا تھا آپ کے یہاں ڈیرے میں۔ دوئم یہ کہ آپ کے نام کے ساتھ لفظ یا لگایا گیا۔ میں نے اب تک اپنی آگہی میں یہ بات جانی ہے کہ لفظ ـــــ ’یا‘ یا تو اللہ کے ساتھ لگایا جاتا ہے یا مُحمدﷺ کے ساتھ، جو کہ یہ بھی غلط ہے۔ لیکن آپ کے نام کے ساتھ کیوں یا لگایا جا رہا ہے؟ نہ عُمرؓ کے ساتھ یا ہے، نہ علیؓ کے ساتھ یا ہے، نہ عُثمانؓ کے ساتھ یا ہے، نہ فاروقؓ کے ساتھ یا ہے! تو ایسا کیوں ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: بات تو سُنیں ! سب کے ساتھ یا ہے ، یا علیؓ بھی ہے، یا غوثؒ المدد بھی ہے۔ لوگ اپنے ،اپنے پیرو مُرشد کویا کے نام سے ہی پُکارتے ہیں نا۔ رہا سوال! اُن کا اپنا اپنا عقیدہ ہے۔ یا سے کُچھ بِگڑتا نہیں ہے، کوئی کُفر لازِم نہیں ہو جاتا۔ بَس!۔۔۔
سوال: جب حضُور پاکﷺ نے اللہ کے ساتھ مُلاقات کی تو اُنکی نِگاہ میں وہ انگُوٹھی تھی اُنگلی میں، جو آپ نے حضرت علیؓ کو دی تھی۔ کیا ہے یہ راز؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: یہ صحیح ہے جی۔ جب میں کہتا ہُوں، کہتے ہیں یہ شیعوں سے مِل گیا ہے۔ لیکن جو صحیح ہے ، وہ صحیح ہے۔ یہ ہماری حدیثوں میں تھا۔ جب اُنہوں نے حدیثیں صحیح کریں! پہلے تھا حدیث مُسلم، حدیث بُخاری! اِنہوں نیں کیں ، حدیث صحیح مُسلم،(تو) حدیث صحیح بُخاری، تو تب یہ چیزیں نِکال دیں نا۔ یہ تھا، باقاعدہ تھا۔ یہ روائتیں تھیں۔
سوال: اِمام مہدیؑ اور دجال کی لڑائی کیسی ہو گی؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: وقت آئے گا تو وہی بتائے گا نا جی! ہم کیسے بتائیں؟
سوال: قُطبِ مَدار کے عہدے پہ کون فائز ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: قُطبِ مَدار کا جب پتہ چل جائے گا نا تو اُسکی پھِر ولائیت چھِن جاتی ہے۔ غوث کا بتا دیتے ہیں، وہ گھمکول شریف میں ہیں۔ پاکِستان میں گھمکول شریف میں،کوہاٹ!
سوال: سرکار آپ نے نَشتر پارک کے پروگرام میں فرمایا تھا کہ حضرت اِمام مہدیؑ کی تصویر تمام ولیوں کو دِکھائی گئی ہے ۔ آپ براہِ مہربانی کُچھ کے نام بتادیں، تا کہ ہم اُنکی کُچھ عرصہ صُحبت اِختیار کر سکیں؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: وہیں چلے جاؤ، گھمکول شریف ہی چلے جاؤ، بَس! اُدھر لندن میں جو یورپ کے لوگ ہیں، وہ شیخ ناظِم سے مِلیں۔ امریکہ والے شیخ ہُشام سے مِلیں۔ اُن لوگوں کو پتا ہے۔ (جی ہاں)۔۔۔
سوال: 40 پارے بھی کیا قُرآن کی طرح لِکھے ہُوئے ہیں؟ آپ نے پڑھے ہُوئے ہیں ہیں! اگر پڑھے ہُوئے ہیں تو لِکھوا کیوں نہیں دیتے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: وہ جو 30 سیپارے ہیں نا، جِس طرح توریت، زبُور، اِنجیل، جِس نبی کی جو زُبان تھی نا، اُسی میں اُترے۔ وہ جو عِلم ہے نا، وہ سُریانی زُبان میں ہے۔ اُسکی تفسیر جو ہے نا، وہ نبیوں، وِلیوں کو پڑھائی جاتی ہے۔ (جِس) جو، جو وہ زُبان جانتے ہیں۔ تو یہ جو قُرآن ، یہ بعد میں آیا۔ توریت آئی، پھِر زبُور آیا، پھِر اِنجیل، (پھِر! ) وہ جو ہے نا، سب سے پہلے جو آدم پہ عِلم تھا نا، وہ سُریانی زُبان میں تھا۔ اور وہ جو عِلم ہے، باطنی عِلم ہے۔ وہ سُریانی زُبان اب تک چل رہا ہے نا۔ جو ولی جِس زُبان کا ہوتاہے، اُس کووہ اُس زُبان میں سِکھایا جاتا ہے نا۔ اِسکی تفسیرسِکھائی جاتی ہے نا۔ اگر اُس کوسُریانی میں سِکھادیں، پہلے اُس کو سُریانی پڑھائیں نا، پھِر وہ سِکھائیں نا۔ تو پھِر وہ باقِیوں کو سُریانی پڑھائے نا۔ اِس وجہ سے، اُسی کی زُبان میں، وہ پڑھایا جاتا ہے۔ وہ تفسیر ہے۔ یہی عِلم ہے اُن کا بَس! یہ خِضر! قُرآن میں اِس کا واقِعہ ہے باقائدہ۔ تو جو مُوسٰیؑ کے پاس عِلم تھا وہ اور تھا، جوخِضرؑ کے پاس عِلم تھا وہ اور تھا۔ اور جو بھی عِلم رَب کی طرف سے آیا، اگر صِرف اِلہام کے ذریعے آیا تو وہ حدیثِ قُدسی ہُوا۔ اگر اِلہام کے ساتھ، جبرائیل تھے، تب اِس کو قُرآن کہتے ہیں نا۔
سوال: بعض لوگ کہتے ہیں کہ اِمام مہدی کے والد کا نام عبدُاللہ، اور والِدہ کا نام آمنہ ہوگا! اور زُبان میں لُکنت ہو گی! کیا ایسا درُست ہے؟
سرکار شاہ صاحب مدظلہ العالی: جب وہ آئے گا پُوچھ لینا، باپ کا نام کیا ہے؟ (اَو) جب آئیں گے، توکہے گا ، میں اِمام مہدی ہُوں! ساری باتیں اُن سے پُوچھنا۔ مُجھ سے کیوں پُوچھتے ہو، میں نے کوئی اِعلان تو نہیں کِیا؟
اب یہ ہے، تھوڑا سا ذِکر کا بتادیتے ہیں،کُچھ نئے لوگ ہوں گے۔کُچھ لوگ ہیں، مُسلمان ہیں، نماز نہیں پڑھتے، ذِکر بھی نہیں کرتے۔ وہ جانوروں کی مانِند ہُوئے نا؟ جانور بھی کام کاج کر کے سو ہی جاتے ہیں۔ وہ نھی کام کاج کر کے سو گئے۔ کُچھ لوگ ایسے ہیں، جو نماز پڑھتے ہیں ذِکر نہیں کرتے۔ کُچھ ایسے ہیں جو ذِکر کرتے ہیں، نماز نہیں پڑھتے۔لیکن وہ جو ذِکر میں لگ گئے، اُس پہلی حالت سے تو بہتر ہیںنا، جب کُچھ بھی نہیں کرتے تھے ۔اب چلو ذِکر کرنا شُروع کر دیا، نماز نہیں پڑھتے۔ لیکِن پہلی حالت سے تو بہتر ہیںنا۔ ہو اُس ذِکر کے طُفیل، اُن کے دِلوں میں اللہ کی مُحبت آجائے۔ اور مُحبت ہی اُن کے لئے شفاعت بن جائے۔ اور ہو سکتا ہے ،اُس ذِکر کے طُفیل ہی وہ نماز کی طرف چلے جائیں۔ اُس وقت دِل بھی پاک ہو چُکا ہو گا اور زُبان بھی پاک ہو (چُکے) گی، وہ نماز حقیقت ہے نا۔ اِس کے لئے نہ کوئی بیعت ہے ، نہ کوئی نظرانہ ہے۔ جہاں بھی مُنسلِک ہو ، ہمیں اِس سے تعلُق نہیں۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ بجائے اِس باہر کی تسبیح کے، تیرے اندر کی تسبیح چل پڑے۔ جِس طرح یہ باہر ٹِک ٹِک ہے ، ایسی تیرے اندر بھی ٹِک ٹِک ہو رہی ہے نا۔ اگر تیرے اندر! ٹِک ٹِک کے ساتھ اللہ اللہ مِلائے گانا، تو وہ اللہ اللہ خُون میں جائے گانا۔ خُون سے ہوتا ہُوانسوں میں، نسوںسے ہوتاہُوا رُوحوں تک! اور تیری رُوحیں بھی اللہ اللہ کرنا شُروع کردیں گی نا۔ ابھی تُو نماز پڑھتا ہے، دِل میں اور ہے، زُبان میں اور ہے۔ اِک دفعہ حضرت اَبُو بکر صِدیقؓ نے حضُور پاکﷺ سے پُوچھا کہ میں جب نماز پڑھتا ہُوںتو مُجھے نماز میں وسوسے آتے ہیں۔ حضُورپاکﷺ نے فرمایا! تُمہیں دو طرح کا ثواب مِل رہا ہے، اِک نماز پڑھنے کا، اِک جہاد کرنے کا۔ (کیا؟) وہ تیرے اندر اللہ اللہ ہوتی ہے، جب وسوسے آتے ہیں تو اللہ اللہ اُنکو باہر پھینکتی ہے نا۔ (اَو) پھِر اللہ اللہ، پھِر وسوسے آتے ہیں، پھِر اللہ اللہ اُسکو باھر پھینکتی ہے ۔ تیرے اندر لڑائی شُروع ہو گئی ہے نا۔ یہ جہاد ہے نا۔ اگر اندر اللہ نہیں تو تو وسوسہ دِل میں بیٹھ جاتا ہے۔ اِس کا مطلب ہے تیرا دِل بھی شیطان کے ساتھ شامِل ہے۔ یہ نماز صُورت ہے۔ اِس نماز کا کوئی اِعتبار نہیں، اور یہی نمازیں ہیں جو قِیامت کے دِن تیرے مُنہ پہ دے ماری جائیں گی۔ جب تیرے دِل میں اللہ اللہ شُروع ہو جائیگی، تُو کوشِش کریگامیں کام کاج کرتا رہُوں، اللہ اللہ ہوتی رہے۔ کامیابی ہو جائیگی۔ پھِر کوشِش کریگا، میں کوئی کِتاب ، رِسالہ پڑھتا رہُوں، گاڑی چلاتا رہُوں، اللہ اللہ ہوتی رہے۔ کامیابی ہو جائیگی۔ پھِر کوشِش کریگا، میں نماز پڑھتا رہُوں اور اللہ اللہ ہوتی رہے۔ اُس وقت جو زُبان کہے گی ، وہی دِل کہے گا نا۔ زُبان کیے گی قُل ھُو اللہ‘ اَحَدْ دِل کہے گا اللہ ہی اللہ ۔ اللہ‘ صَمَدْ دِل کہے گا اللہ ہی اللہ۔ اب وسوسے گئے نا، باہر گئے نا۔ یہ زُبانی عِبادت اُوپر نہیں جاتی۔ یہ دِل تُمہارے اندر ٹیلیفُون ہے۔ اللہ اور تُمہارے درمیان، یہ دِل ٹیلیفُون ہے، اِس میں شیطان بیٹھا ہُوا ہے، نماز تُمہاری اُوپر کیسے جائے۔ جب اللہ اللہ اِس دِل میں آئیگی ، شیطان جائے گا۔ اِس میں نُور بنے گا۔ جِس طرح ٹیلیفُون میں بِجلی ہوتی ہے، تو کام کرتا ہے۔ دِل میں نُور ہوگا، یہی کام کریگا۔ اُس بِجلی کی لہریں یہاں سے اُٹھتی ہیں،امریکہ بات ہوتی ہے۔ اور دِل کے نُور کی لہریں یہاں سے اُٹھتی ہیں، تو عرشِ مُعلٰی بات ہوتی ہے۔ اللہ! اُس وقت تُو نماز پڑھے گا ، اِس ٹیلیفُون کے ذریعے اُوپر جائیگی۔ وہ نماز مومِن کا معراج ہے۔ (اَو) تُو بات کریگا، وہ بھی اُوپر چلی جائیگی۔ ولِیوں کے پاس لوگ کِیوں جاتے ہیں؟ گھر میں گڑگڑاتے رہتے ہیں۔ وہی اللہ ہے نا، جو ولِیوں کے پاس ہے نا، کوئی سُنتا ہی نہیں ہے! جب وہاں جاتے ہیں نا، تو وہاں ٹیلیفُون لگے ہُوئے نا، بات کرتے ہیں اُوپر پُہنچ جاتی ہے۔ کام ہو جاتا ہے۔ تو پھِر تُم ٹیلیفُون لگاؤ نا، یہ تو سب کیلئے ہے۔ جِن لوگوں کے دِلوں میں ٹیلیفُون تھا،وہ نہیں کہتے تھے، میں سُنی ہُوں، میں شِیعہ ہُوں، میں وہَابی ہُوں! وہ کہتے(ہیں)! اُمتی ہُوں تُمہارا یا رَسُول اللہﷺ۔ جب یہ ٹیلیفُون، نُور نِکل گِیا تو کِتنے 72 فِرقے بن گئے نا۔ اب حکُومت کہتی ہے ،فِرقے ختم ہوں! کیسے ختم ہوں؟ وہ شیطان گھُسے ہُوئے ہیں اندر دِلوں میں۔ باہر سے بڑھی بڑھی داڑھیاں، بڑے بڑے مِحراب ہیں، دِلوں میں شیطان ہیں۔ تو شیطان تو نہیں ایک ہونے دیتا۔وہ تو میاں بیوی کو خواہ مُخواہ لڑادیتا ہے، مولوی کو مولوی سے لڑا دیتا ہے۔ جب تک شیطان نہیں نِکلے گا! شیطان تب نِکلے گا ، تُمہارے اندر نُور آئے گا۔ تو پھِر تُم سارے مومِن بن جاؤ گے۔ نُوری رِشتے قائم ہو جائینگے۔ جِس طرح بھائی، بہن کے رِشتے خُونی رِشتے ہیں، پھِر وہ نُوری رِشتے ہوں گے۔ اُس وقت تُم بھائی، بھائی ہو نا۔ اِو سے پہلے تُم بھائی، بھائی نہیں ہو سَکتے۔ تو جب یہ اللہ دِل میں شُروع ہو جاتی ہے نا، تو پھِر جو بھی چِیزدِل میں آئے اُس سے مُحبت ہو جاتی ہے نا۔اللہ دِل میں آگیا، اللہ سے مُحبت ہو گئی۔پھِر جب تُمہارے دِل میں اللہ کی مُحبت! پھِر اللہ تُم سے مُحبت کرے گا۔ تو پھِر جِن لوگو ں سے اللہ مُحبت کرتا ہے نا، پھِر اُن کا خِیال بھی رکھتا ہے۔ پھِر وہ گُمراہ نہیں ہوتے۔ پھِروہی ہیں جِن کو اللہ چاہے ہِدایت دے۔ اِسکے لئے اگر کوئی ذِکر لینا چاہتا ہے،تو میری آواز کے ساتھ اللہ‘ پڑھیں گے، ذِکر کی اِجازت ہو جائیگی۔ پریکٹس کریں اگر اندر اللہ اللہ شُروع ہو گیاتو دُعا دے دینا۔ نہیں تو تُم اپنے گھر، ہم اپنے گھر۔ اور تھوڑا سا ایسا اِک اور طرِیقہ ہے! جب رات کو سونے لگیں، اِس اُنگلی کو قَلم خِیال کریں کہ میں کہ میں تَصوّر سے اپنے دِل پہ اللہ لِکھ رہُوں۔ جو تُمہارا پِیرو مُرشد ہے اُس کو پُکاریں، وہ تُمہاری اُنگلی پکڑ کے تُمہارے دِل پہ اللہ لِکھ رہا ہے۔ اِن میں نُورانی طاقت ہوتی ہے۔ اگر پِیر و مُرشد نہیں ہے تو جِس دربار میں تُمہارا آنا جانا ہے، وہ بھی کامِلِ ذات کا دربار ہو، اُس کا نقش لیں ، اُس دربار والے، میری اُنگلی پکڑ کے میرے دِل پہ اللہ لِکھ رہے ہیں۔ یہ کرتے ہیں، یہ کام! اگر دربار میں بھی آنا جانا نہیں توحضُور پاکﷺ کے روضے کو پُکاریں گے، وہیں سے میری اُنگلی سے اللہ لِکھا جا رہا ہے ۔ اُس وقت جو بھی تُمہارے سامنے آئے، تُمہارا نصیبہ اُس کے پاس ہے۔ یہی لِکھتے، لِکھتے، پڑھتے، پڑھتے رات کو سو جائیں۔ صُبح اُٹھیں وضُو ہے یا نہیں ہے! دِل کا وضُو پانی سے نہیں ہوتا۔ ذِکرِ خفی کرتے رہیں۔ ذِکرِ خفی کوئی کمال نہیں ہے ، ہر آدمی کرسکتا ہے۔ کبھی، کبھی دِل پہ ہاتھ رکھیں، جب دِل دھڑکے ، اُس دھڑکن کے ساتھ اللہ‘ مِلائیں۔ جِس دِن تُمہارے دِل کی دھڑکن نے اللہ‘ پُکارا! آج تُم کو اللہ نے قبُول کر لیا۔ اللہ! پھِر کوئی ایسا کام کریں ، جِس سے دِل دھڑکے۔ بھلے ورزش کریں، تو بھلے دوڑیں، جب دِل دھڑکے، تو اُس دھڑ کن کے ساتھ اللہ‘ مِلائیں۔ کُچھ دِن ایسا کریں گے تو دِل کی دھڑکنیں اللہ‘ میں تبدیل ہو جائیں گی۔ کبھی، کبھی جب فارغ بیٹھے ہیں، نبض پہ ہاتھ رکھیں۔ نبض کی ٹِک ٹِک کے ساتھ اللہ‘ مِلائیں کہ اللہ‘ میرے اندر جا رہا ہے۔ ہِمتِ مرداں تو مَددِ خُدا!
تو جِس کو اللہ چاہے گا ، اِک معمُولی سا بہانہ اُس کے لئے کافی ہے۔ تو پھِر جِس کو نہیں چاہے گا، وہ تو کہے گا (میں) تو 10 سال ہوگئے، 20 سال ہو گئے، میرا تو قلب نہیں چلا! یہ اپنے آپ کو پہچاننے کا راز ہے! کہ تُو کیا ہے؟ تیرے اُوپر اللہ مِہربان کِتنا ہے؟ یہی ایک کسوٹی ہے، اِس کے بغیر اور کوئی کسوٹی نہیں ہے۔اگ ذِکر سے گرمی محسُوس ہو تو درُود شریف پڑھیں، اُسکو ٹھنڈا کر دے گا۔ پھِر آپ دیکھتے ہیں، میں اللہ‘ کرتا ہُوںگرمی آتی ہے اندر پھِر درُود شریف پڑھیں، اُسکو ٹھنڈا کردے گا۔ اِک دِن درُود شریف، اللہ اِک ہو جائیں گے، نہ سردی نہ گرمی۔ اُسکے بعد اگر اِسکے ساتھ قلب میں اللہ اللہ کر رہے ہیں، ساتھ بُرائیاں بھی کر رہے ہیں، توتُمہاری گاڑی کے رَستے میں رُکاوٹ ہو جائیگی۔ اگر اِسکے ساتھ نیکیاں کریں گے، نمازیں، روزے بھی کریں گے نا، تو بڑی جلدی تُمہاری گاڑی اللہ کی طرف پُہنچے گی۔ اللہ! اِسکے لئے جوِذِکر لینا چاہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔