ماہانہ فرض (سوال و جواب) میرپور خاص پبلیکیشن 1997

فرض: آپ کی تعلیمات کیا ہیں، اور کون لوگ آپ کی مخالفت پرکمر بستہ ہیں؟
گوہر شاہی:ہم بلا تفریق رنگ و نسل اللہ کی محبت کا درس دے رہے ہیں، ہمارا پیغام ہے کہ جس دل میں اللہ کی محبت نہیں اس انسان کا وجود ہی بیکار ہے۔اللہ سے محبت کے بعد انسانی برائیاں آہستہ آہستہ ختم ہوجاتی ہیں ۔ ہمیں اس مشن میں نام نہاد دین کے ٹھیکیداروں کی مخالفت کا سامناہے ان کی مخالفت سبب ان کا اپنا حسد اور تکبر ہے، جن لوگوں کو واقعی اللہ سے محبت ہوجاتی ہے وہ ہمارے ساتھ تنمن دھن سے لگ جاتے ہیں او ردوسروں کو بھی راہ ہدایت دیتے رہتے ہیں، مولوی خیالی جنت دکھاتا ہے جبکہ اللہ والے اللہ سے محبت کی طرف مائل کرتے ہیں ،جب اللہ سے محبت ہوجاتی ہے تو اللہ حقیقی جنت اور مقام دنیا ہی میں دکھادیتا ہے، مولوی شریعت ہی کی تعلیم دے سکتے ہیں جبکہ ہمارا علم طریقت ،حقیقت ، معرفت سے بھی آگے کا ہے،پہلے اسم ذات اللہ جنگلوں میں قسمت سے ملتا تھا لیکن اب گھر بیٹھے مل رہا ہے۔

فرض:آپ بغیر کلمہ پڑھائے روحانیت کے ذریعے اللہ تک رسائی کا دعویٰ کرتے ہیں، کیا یہ اسلام کے منافی نہیں ہے؟
گوہر شاہی: خدا کی طرف دو راستے جاتے ہیں ایک راستہ دین سے ہو کر جاتا ہے اور دوسرا راستہ عشق اور محبت کا راستہ ہے، دین کے ذریعے جو راستہ جاتا وہ اس طرح ہے جس طرح کوئی گاڑی شہر سے ہو کر گزرے، شہر سے گزرنے کی وجہہ سے اس پر بہت سے قوانین لاگو ہوجاتے ہیں راستے میں سگنل بھی آتے ہیں اور اسٹاپ بھی آتے رہتے ہیں ،ٹریفک کی پوری پابندی کرنی پڑتی ہے اور گاڑی بھی ایک سلیقہ سے چلانی پڑتی ہے۔ خدا کی طرف جانا دوسرا راستہ عشق و محبت کا راستہ ہے بالکل اس طرح جیسے کوئی گاڑی شہر میں داخل ہوئے بغیر ہی اپنی منزل کی طرف رواں د واں ہے اس پر شہر کے قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے اور ہو شہرکے قوانین پر عمل کیے بغیر ہی اپنی منزل کی طرف گامزن رہتی ہے ایسے راستے کو بائی پاس کہتے ہیں لیکن ہی راستہ ان لوگوں کے لیے ہے جن کو اللہ اس راسے کے چن لے،اس کی دو مثالیں ہیں ایک وہ چور جو حضور غوث پاک ؒ کے گھر چوری کی نیت سے داخل ہوا اور قطب بن گیا اور ایک حضرت ابو بکر حواریؒ جو بہت بڑے ڈاکو تھے،مائیں بچوں کو ان کا نام لے کر ڈرایا کرتی تھیں وہ ایک ہی رات میں ولی بن گئے نہ ان لوگوں نے نماز پڑھی روزے رکھے تھے اور نہ ہی یہ لوگ پرہیزگار تھے بس کامل نظروں نے ان کو صاف کردیا اور وہ ولی بن گئے، انسان کے لیے قانون ہے کہ خدا تک پہنچنا ہے تو مذہب کے ذریعے جائے لیکن خدا کے لیے کوئی قانون نہیں وہ جس کو چاہے بغیر مذہب گھی اپنے پاس بلاسکتا ہے اس نے اصحابِ کہف کو کتے کو چاہا تو وہ بھی حضرت قطمیر بن گیا اس کتے نے کون سی عبادت و ریاضت کری تھی،اس کا کون سا مذہب تھا یعنی وہ ہر چیز پر قادر ہے اگر وہ چاہے تو بغیر مذہب کے بھی کسی کو اپنا بناسکتا ہے ، اللہ تو سب ہی کا ہے کوئی اسے رام پکارتا ہے اور کوئی رحیم کہتا ہے لیکن وہ نہ تو مسجد میںملتا ہے ارو نہ مندر میں ہوتا ہے وہ تو بندہ مومن کے دل کے اندر رہتا ہے،جس نے اس کو پایا من کے اندر سے پایا اور محبت کا تعلق بھی دل سے ہے زبان سے کچھ اور دل سے کچھ اور ہی منافقت ہے اگر اللہ سے محبت کرنی ہے تو پھر دل سے اللہ اللہ کرنی پڑے گی پھر نور دل میں اکٹھا ہوجائے گا اور خون میں داخل ہوتا ہے ان روحوں کو جن کو ہندو شکتیاں بولتے ہیں وہ اس نور کو غذا کے طور پر کھائیں گی اور پھر جسم سے باہر نکلیں گی ،اللہ کو دیکھنے کے قابل ہوسکیں گی یہ ایک دوائی ہے ٹیکے کی مانند جب دل اللہ اللہ کرتا ہے تو اندر چمک جاتا ہے اور آتمائیں (روحیں)بھی چمک جاتی ہیں اور اللہ (بھگوان)کی محبت بھی دل میں بڑھ جاتی ہے زبان سے تو اللہ (بھگوان) سے محبت نہیں ہوتی محبت کا تعلق تو دل سے ہے اللہ کا گھر دل ہے اور دل میں وہ اس وقت تک نہیں آتا جب تک دل پاک اور صاف نہ ہوجائے اور دل اسی وقت صاف ہوگا جب اس کو صاف کرنے کی کوئی دوا لگے کی اور وہ یہ ہے کہ تمہارے دل میں پیدا کرنے والے کی محبت آجائے،کوئی اسے رام بولتا ہے کوئی ایشور بولتا ہے کوئی گاڈ، مگر اس کا ذاتی نام اللہ ہے اور وہ اللہ نہ مسجد میں رہتا ہے نہ مندر میں وہ تو بندے کے من رہتا ہے اگر تم اس کو ڈھونڈنا چاہتے ہو تو من میں ڈھونڈو یہ جسم تو مٹی کا ہے اس کو یا تو جلا دیا جاتا ہے قبر کے اندر مٹی میں مل جاتا ہے پھر جنت ، دوزخ کس چیز کو ملے گی وہ تمہاری روحوں کو ملے کے جو جسم کے اندر ہیں، مسلمان ان کو لطائف بولتے ہیں اورہندوان کو شکتیاں بولتے ہیں اگر تم ان کو جگانا چاہتے ہو تو تو پھر دل سے اس پیدا کرنے والے کی پوجا ،عبادت کرو گے تو پھر اس دل میں اس کا نام لینے سے نور بنے گا وہ نور پھر ان شکتیوں کوملے گا پھر تم سورہے ہو گے تو وہ روحیں اس اللہ اللہ کے نور سے طاقتور ہو کر اس پیدا کرنے والے کو دیکھنے کے قابل ہوجائیں گی، مذہب جسم کا ہے روحوں کا مذہب ہیں ہے،جب انسان مرتا ہے تو مذہب یہیں رہ جاتا ہے کسی کی روح اگر روحانی ہے تو آگے یعنی عالمِ بالا میں چلی جاتی ہے وہاں مذہب نہیں ہے ایسی روحیں وہاں ایک ہوجائیں گی کیونکہ مذہب ہر کسی کے لیے ہے اور روحانیت ہر ایک کے لیے نہیں ہے اگر یہاں لوگ روحانی ہوجائیں تو ایک ہوجائیں گے۔

فرض:ختمِ نبوت کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
گوہر شاہی:ہم ایک بار پھر واضح طور پر باور کراہے ہیں کہ ختمِ نبوت پر ہمارا کامل یقین ہے اور حضور پاک ﷺ کو آخری نبی نہ ماننے والا کافر و زندیق ہے،ہم نے کبھی نبوت کا دعویٰ نہیں کیا ، ہماری رگ رگ اللہ و رسول ﷺکے عشق میں تڑپتی ہے، اس ضمن میں دعویٰ نبوت کے تمام مقدمات و الزامات بے بنیا د اور جھوٹے ہیں اور صوفیوں کی تعلیمات کے مخالف فرقہ پرست مولویوں کی گھناونی سازش کا حصہ ہیں جو ہمارے مشن کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں لیکن مخالفین یاد رکھیں کہ وہ اپنی سازشوں کے ذریعے گوہر شاہی کو جھکا نہیں سکتے۔

فرض: ایک تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ حجرِ اسود، چاند ، سورج، مریخ،،خلائ،اور نبیولا سیارے میں آپ کی شبہیات نمودار ہونے کے دعویٰ ، مہدیت کی راہ ہموار کرنے کا حصہ ہیں؟
گوہر شاہی:ہم نے مہدیت کا دعویٰ نہیں کیا، یہ مخالفین کا پروپیگنڈہ ہے البتہ ہم نے یہ ضرور کہا ہے کہ حضرت امام مہدیؑ کی پشت مبارک پر مہرِ مہدیت ہوگی جس طرح حضور پاکﷺ کے پشتِ مبارک پر مہرِ نبوت تھی،مہرِ مہدیت نسوں سے اُبھری ہوئی ہوگی اور اس کے ساتھ کلمہ شریف بھی موجود ہوگا، اسی بناء پر مہرِ مہدیت کا مصنوعی ہونا نا ممکن امر ہے،جبکہ امام مہدیؑ کا ساتھ وہ لوگ دیں گے جن کے دلوں میں نورہوگا۔ جہاں تک حجرِ اسود ،سورج،مریخ اور قدرت کی دیگر نشانیوں میں ہماری شبہیات نمودار ہونے کا معاملہ ہے، ہمیں نہیں معلوم یہ کیوں نمودار ہورہی ہیں، لیکن ٹھوس سائنسی شواہد اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اصل حقائق تک بآسانی رسائی حاصل کی جاسکتی ہیں، جبکہ اسسلسلے میں امریکی خلائی ادارے ناسا سمیت دنیا کے دیگرخلائی تحقیقی ادارے اس بارے میں پہلے ہی اپنی ریسرچ مکمل کرچکے ہیں، تاہم محض ایک مسلمان اور ایشیائی ہونے کی بناء پر حقیقت کا اعتراف کرنے سے گریزاںہیں،جبکہ ہم حکومتِ پاکستان سے کئی مرتبہ اپیل کرچکے ہیں ہیں وہ قدرت کی ان نشانیوں کے حوالے سے عام شخص تک حقائق پہنچانے میں ہماری مدرکرے، اس ضمن میں ایک اعلیٰ سطحی بورڈ تشکیل دیا جائے ،جس میں منصف مزاج کے حامل دانشوروں، سائنسدانوں،صحافیوں،اور صوفیاء کرام کی تعلیمات سے محبت رکھنے والے علماء با عمل سمیت زندگی کے مختلف شعبہء ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے چیدہ چیدہ افراد کو شامل کیا جائے جو اپنی تحقیقات کی روشنی میں اس حساس معاملے کی تمام جزئیات اور پس منظر سے عوام کو آگاہ کریں۔

فرض:کیا یہ الزام درست ہے کہ آپ غیر مسلموں کے ساتھ مل کر مذہبی قوانین خصوصاََ قانون توہینِ رسالت کی دفعہ (295abc) کے خاتمے کے لیے کوشاں ہیں؟
گوہر شاہی:سب سے پہلے تو ہم آگاہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہماری زیرِ سرپرستی مذاہبِ عالم کی مشترکہ عالمی روحانی تنظیم آل فیتھ اسپیریچول آرگنائیزیشن کا قیام کسیقانون کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے افراد کی اصلاح اور خدا کی محبت کا درس دینے کے لیے دو سال قبل آئرلینڈ میں عمل میں لایا گیا۔ اس تنظیم کو برطانیہ میں امریکہ میں امریکن صوفی انسٹیٹیوٹ اور پاکستان میں انجمن سرفروشانِ اسلام کا مکمل تعاون حاصل ہے۔جہاںتک قانون توہینِ رسالت کامعاملہ ہے ہم حلفیہ اس الزام کی ایک بار پھر تردید کرتے ہیں کہ ہم قانون توہینِ رسالت کے خلاف ہیں اور نہ ہی اس قانون میںکسی قسم کی ترمیم چاہتے ہیں بلکہ ہماری جدوجہد کا مقصد مذکورہ قانون کے غلط استعمال کا سّدِ باب کرنااور بے گناہوں کو انصاف کی فراہمی ہے،کیونکہ مملکت خدا داد پاکستا ن میں توہین رسالت کے قانون کو ایک مذہبی گروہ اپنی جماعت کی طاقت کے بل بوتے پر دوسرے مسلک اور مذاہب کے لوگوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کررہا ہے اب تک بے شمار بے گناہ لوگ فقط اس بات پر عمر قید اور موت کی سزائیں پاچکے ہیں کہ ان کے نظریات اس مخصوص گروہ سے متصادم ہیں یہ انتہا پسند طبقہ اپنی مرضی کے عقائد کے فروغ اور اپنے گستاخانہ نظریات پر سے عوام کی توج ہ ہٹانے کے لئے توہین رسالت کے قانون(295abc) کے ذریعے بے گناہ عاشقان رسولﷺاور درویش صفت اہل تصوف کو پابند سلاسل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کررہا ہے جبکہ انتظامیہ میں بے قصور لوگوں کی کوئی شنوائی نہیں کوئی اخبار (295abc) کے تحت درج مقدمات کی حقیقت شائع کرنے پر تیار نہیں اکثر اخبارات و رسائل بھی انہی لوگوں کے زیر اثر ہیں باقی خوف کا شکار ہوکر خاموش ہیں یہ حقائق ہم آپ تک پہنچارہے ہیں کہ اس ستم کا مزہ ہم سب نے بھی چکھا ہے اور کل آپ بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں کہ توہین رسالت کے جھوٹے الزام میں کس قدر بدنامی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ہم اس قانون کے خلاف نہیں بلکہ اس کے غلط استعمال کے خلاف ہیںجس کا اس مخصوص گروہ نے ناجائز فائدہ اُٹھایا ہے پاکستان کی تاریخ میں یہ وہ لوگ ہیں جو قرآن خود جلاتے ہیں اور خود ہی گواہ بن کر دوسروں کو پھنسادیتے ہیں ، گوجرانوالہ میں ایک حافظِ قرآن کو کچھ اسی طرح کا الزام لگا کر سنگسار کردیا گیا تھا۔یہ لوگ مزارات کو اور تصوف کے سخت دشمن ہیں پاکستان میں مزارات کو ختم کرنے اور اولیاء کرام کی تعلیم کو عام ہونے سے روکنے کے لیے ان کے ہاتھ بزرگانِ دین کے گریبانوںتک پہنچ چکے ہیں ۔ اپنے مذموم مقاصد کے لیے کسی بھی شخص کو قتل کرنا ثواب سمجھتے ہیں خواہ اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقہ سے ہواگر اس قانون کے تحت درج کیے گئے مقدمات کاجائزہ لیں تو ایک مخصوص گروہ کے مولویوں کے کارنامے نظر آئیں گے حکومتِ پاکستان کو اس کا پورا علم ہے اگر کوئی قدم اٹھانا چاہتی ہے تو یہ لوگ اپنے گروہ کو سڑکوں پر لے آتے ہیں انتظامیہ خوف کی وج ہ سے ان کے خلاف اقدام نہیں کرتی اگر حکومت کوئی قدم اٹھانے سے پہلے ان مقدمات کے حقائق میڈیا کے ذریعے عام کردے تو لوگ اصل حقائق سے واقف ہوکر اس گروہ کی ناکامی کے لیے ایک طاقت بن جائیں گے ، کچھ عرصہ قبل جھوٹے اور غلط طور پر درج کروائے گئے ہیں جب تک عدالتوں میں کاروائی شروع ہوتی ہے تو اس وقت تک جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے متاثرہ شخص کی عزت کا جنازہ نکالا جاچکا ہوتا ہے، ذہنی اذیت پورا خاندان تباہ و برباد اور رسواحتیٰ کہ غاصب اسکی جائیداد پر قبضہ کرکے یا آگ لگا کر اپنے مذموم ارادے میں کامیاب ہوچکے ہوتے ہیں اس بربریت کی وجہ سے معصوم دلوں میں نفرتیں ابھر رہی ہیں اور بین الاقوامی سطح پر اسلام اور پاکستان بدنام ہورہا ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اس جدو جہد سے سب کا بھلا ہو جائے اس ظلم وناانصافی کی روک تھام کے لیے ایک پلیٹ فارم آل فیتھ اسپیریچول آرگنائیزین تشکیل دیا گیا ہے اس کا مقصد ہر معصوم اور بے گناہ کو تحفظ دینا ہے اور جو مذہبی انتہا پسندی اور تشدد کا خاتمہ چاہتا ہو اس تحریک میں شامل ہوسکتا ہے حقوق العباد میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے اور مسکینوں مظلوموں کی مدد سے بڑھ کر کوئی نیکی نہیں یہ پیغام ہر مذہب اور مسلک کے لیے ہے تا کہ حقائق اور سچائی سامنے آ سکے اور مظلوم عوام اس ظلم سے نجات پاسکیں۔

فرض:قانون توہین رسالت کے غلط استعمال کی کچھ مثالیں بتائیے؟
گوہر شاہی:جیسے گوجرانوالہ میں حافظ سجاد کو بھی اس قسم کے الزام میں سنگسار کیا گیا بعد میں پتہ چلا کہ وہ بے قصور تھا تو مارنے والے کہنے لگے کہ ہمیں غلط فہمی ہوگئی تھی اب جا کر عدالت نے ان مجرموں کو صرف دس سال کی قید سنائی ہے جبکہ انکی غلط فہمی کے اقرار سے حافظ سجاد کی جان واپس نہیں آسکتی اور جب قتل ہوا ہے تو اس کے بدلے عدالت کو ان مجرموں کو سزائے موت ہی دینی چاہیے ، تب انصاف ہوگا۔دوسری مثال لاہور جیل میں قید ابو محمد یوسف علی کی ہے، ان کی جانب سے واضح بیان اور اشتہار چھپوانے کے باوجود جس میں اس نے اپنے آپ کو حضورﷺ کا ادنیٰ غلام کہا اور امتی تسلیم کیا اور حضور پاکﷺکے آخری نبی ہونے کا اقرار کیا، مگر یوسف علی کے مخالفین کو زیادہ علم ہوگیا کہ اس نے نبوت کا اعلان کردیا اور ختم نبوت کا منکر ہوگیا جھوٹی گواہیوں سے عدالت نے اسے سزائے موت بھی سنادی اب بتاو ہوسف علی کس طرح دنیا کو فیس کرے گا کل اپیل کے اندر اگر یوسف علی بے گناہ ثابت ہوگیا تو اس کی سخت ترین ہونے والی بدنامی زندگی کی تباہی کا ذمہ دار کون ہوگا ؟ اسے پوچھنے والا کوئی بھی نہیں ہے۔ جبکہ صوفی شعبان نے گاوں کے چوہدری کا کوئی ناجائز حکم نامانا زمین کا تنازعہ چل پڑا،چوہدری نے ایس ایچ او کو پیسہ کھلا کر ساری زندگی لے لیے توہینِ رسالت ﷺ کے جھوٹے مقدمے پھنسادیا نہ اسکی ضمانت ہوسکتی ہے نہ اسے صفائی کا موقع ملے گا۔ سزائے موت یا کم از کم عمر قید تو اس کا مقدر ہو ہی گئی پوری دنیاسے صوفی شعبان کا رشتہ ٹوٹگیا ہم اور تم اسے گھر بیٹھے گالیاں دینے لگتے ہیں نہ کوئی تحقیق کرتا ہے نہ اس سے کوئی ہمدردی کرتا ہے بلکہ اس کوجان سے مار دینے ہی کو ثواب سمجھتا ہے۔کراچی اورنگی ٹاون میں قرآن جلانے کے الزام میں (295abc) کا مقدمہ بغیر کسی تحقیقات کے محمد ارشد نامی نیم پاگل شخص کے خلاف درج کردج کردیا گیا ، جو اس مقدس قانون سے مذاق کے مترادف ہے۔بس ہم یہی کہتے ہیں کہ ایف آئی آر مکمل تحقیقات کے بعد درج کی جائے کیونکہ پاکستان میں جو کچھ آٹھویں کلاس پاس پولیس والا ایف آئی آر میں درج کردیتا ہے ملزم کی قسمت بھی داو پر لگ جاتی ہے۔اسی طرح ہم(ریاض احمد گوہر شاہی)پر بھی 3جھوٹے توہینِ رسالتﷺکے مقدمات قائم کئے گئے جبکہ آج تک کوئی بھی ثبوت کسی قسم کاکوئی شخص پیش کرنے سے قاصر ہے مثلااعلانِ نبوت ،گستاخی رسالتﷺ، توہین قرآن یا اس کے علاوہ اور کچھ بھی مگر پھر بھی عدالت اپنا فیصلہ جھوٹی گواہیوں اور جھوٹے مقدمے پر سنا چکی ،دوسرے کیس بھی چل رہے ہیں اس کے علاوہ انجمن سرفروشانِ اسلام کے100سے زائد افراد کے خلاف بھی295کے تحت جھوٹے مقدمے قائم ہیں اس کے علاوہ بے شماربے گناہوں کی لسٹ آپ کو ادارہ امن و انصاف کے آفس سے مل جائے گی جن میں سے کچھ مر گئے کچھ قید ہوئے کچھ سسکتی ہوئی زندگی گزارہے ہیں پہلے اقلیتوں کے اوپر یہ حربہ استعمال ہوتا تھاتو ہم یہ سمجھتے تھے کہ شاید غیر مسلم نے گستاخی کری ہوگی مگرحکومت کا کام انصاف دینا ہوتا ہے خواہ اسکا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو دوسرا کردار اخبارات کا ہے اگر غلط رپورٹنگ ہوئی تو اس کا کی شخصیت کا جنازہ ہی نکل جاتا ہے اللہ کے گھر کل ان سب کی پکڑ ہوگی جو جو انسانیت کے قتل میں مددگار ہوئے۔ہم سب متاثرین  (295) مل کر یہ جدجہد اس وقت تک جاری رکھیں گے جب تک بلا تفریق رنگ و نسل ہر بے گناہ کو (295abc) سے بری نہیں کردیا جاتا جھوٹے مقدمات واپس نہیں لے لئے جاتے اور اس کا غلط استعمال بند نہیں ہوجاتا اس کے ہم ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

فرض:آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟
گوہر شاہی:

یہ راز چھپا کرکریں گے کیا ، اب تو دنیا فانی ہے
انتظار تھا جس قیامت کا ، عنقریب آنی ہے
دجال و رجال پیدا ہو چکے یہ بھی رازِ سلطانی ہے
ظاہر ہونے والا ہے مہدی بھی ، یہی رازِ سلطانی ہے

%d bloggers like this: