http://www.sufisaint.com/wp-content/uploads/2019/08/Sufisaint-Cover-1.mp4

لفظ سُریانی زبان جو آسمانوں پر بولی جاتی ہے، فرشتے اور رب اسی زبان سے مخاطب ہوتے ہیں۔ جنت میں آدم ؑ صفی اللہ بھی یہی زبان بولتے تھے، پھر جب آدم ؑ صفی اللہ اور مائی حوا دنیا میں آئے، عربستان میں آباد ہوئے۔ اُن کی اولاد بھی یہی زبان بولتی تھی، پھر آل کے دنیا میں پھیلاؤ کی وجہ سے یہ زبان عربی ،فارسی، لاطینی سے نکلتی ہوئی انگریزی تک جا پہنچی، اور اللہ کو مختلف زبانوں میں علیحدہ علیحدہ پکارا جانے لگا۔ آدم علیہ السلام کے عرب میں رہنے کی وجہ سے سریانی کے بہت سے الفاظ اب بھی عربی زبان میں موجود ہیں۔ جیسا کہ آدم ؑ کو آدم صفی اللہ کے نام سے پکارا تھا ۔ کسی کو نوح نبی اللہ، کسی کو ابراہیم خلیل اللہ، پھر موسیٰ کلیم اللہ، عیسیٰ روح اللہ اور محمد الرسول اللہﷺ پکارا گیا۔ یہ سب کلمے سریانی زبان میں لوح ِمحفوظ پر ان نبیوں کے آنے سے پہلے ہی درج تھے، تبھی حضور پاکؐ نے فرمایا تھا کہ میں اس دنیا میں آنے سے پہلے بھی نبی تھا ۔

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ لفظ اللہ مسلمانوں کا رکھا ہوا نام ہے، مگر ایسا نہیں ہے

حضرت محمدالرسول اللہؐ کے والد کا نام عبداللہ تھا ۔ جبکہ اس وقت اسلام نہیں تھا۔ اور اسلام سے پہلے بھی ہر نبی کے کلمے کے ساتھ اللہ پکارا گیا۔ جب روحیں بنائی گئیں تو ان کی زبان پر پہلا لفظ اللہ ہی تھا۔ اور پھر جب روح آدم کے جسم میں داخل ہوئی تو یا اللہ پڑھ کر ہی داخل ہوئی تھی۔ بہت سے مذاہب اس رمز کو حق سمجھ کر اللہ کے نام کا ذکر کرتے ہیں ۔ اور بہت سے شکوک و شبہات کی وجہ سے اس سے محروم ہیں۔

جو بھی نام رب کی طرف اشارہ کرتا ہے قابل ِتعظیم ہے۔

یعنی اللہ کی طرف رخ کر دیتا ہے۔ مگر ناموں کے اثر سے متفرق ہوگئے۔ حروف ِابجد اور حروف ِتہجی کی رو سے ہر لفظ کا ہندسہ علیحدہ ہوتا ہے،یہ بھی ایک آسمانی علم ہے۔ اور اِن ہندسوں کا تعلق کُل مخلوق سے ہے۔بعض دفعہ یہ ہندسے ستاروں کے حساب سے آپس میں موافقت نہیں رکھتے۔ جس کی وجہ سے اِنسان پریشان رہتا ہے ۔ بہت سے لوگ اس علم کے ماہرین سے ستاروں کے حساب سے زائچہ بنوا کر نام رکھتے ہیں۔جیسا کہ ابجد ( ا ، ب ، ج ، د ) (۱،۲،۳،۴ ) کے دس(۱۰) عدد بنتے ہیں۔ اسی طرح ہر نام کے علیحدہ اعداد ہوتے ہیں۔ جب اللہ کے مختلف نام رکھ دئیے گئے تو ابجد کے حساب سے ایک دوسرے سے ٹکراؤ کا سبب بن گئے۔ اگر سب ایک ہی نام سے رب کو پکارتے تو مذاہب جُدا جُدا ہونے کے باوجود، اندر سے ایک ہی ہوتے۔ پھر نانک صاحب اور با با فرید کی طرح یہی کہتے ۔

سب روحیں اللہ کے نور سے بنی ہیں ۔لیکن اِن کا ماحول اور ان کے محلے علیحدہ ہیں

جن فرشتوں کی دنیا میں ڈیوٹی لگائی جاتی ہے، انہیں دنیا والوں کی زبانیں بھی سکھائی جاتی ہیں ۔ امتیوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے نبی کا کلمہ ، جو نبی کے زمانہ میں امت کی پہچان ، فیض اور پاکیزگی کے لئے رب کی طرف سے عطا ہوا تھا، اُسی طرح اُسی زبان میں کلمے کا تکرار کیا کرے۔کسی کو کسی بھی مذہب میں آنے کے لئے یہ کلمے شرط ہیں جس طرح نکاح کے وقت زبانی اقرار شرط ہے۔جنتوں میں داخلے کے لئے بھی یہ کلمے شرط کر دیئے گئے۔ لیکن مغربی ممالک میں بیشتر مسلم اور عیسائی اپنے مذہب کے کلموں حتیٰ کہ اپنے نبی کے اصلی نام سے بے خبر ہیں۔زبانی کلمے والے اعما لِ صالح کے محتاج ، کلمہ نہ پڑھنے والے جنت سے باہر اور جن کے دلوں میں بھی کلمہ اُتر گیا تھا، وہی بغیر حساب کے جنت میں جائیں گے۔ آسمانی کتابیں جو جس بھی زبان میں اصلی ہیں ۔ وہ رب تک پہنچانے کا ذریعہ ہیں، لیکن جب اِن کی عبارتوں اور تر جموں میں ملاوٹ کر دی گئی، جس طرح ملاوٹ شدہ آٹا پیٹ کے لئے نقصان دہ ہے، اِسی طرح ملاوٹ شدہ کتابیں دین میں نقصان بن گئی ہیں اور ایک ہی دین ، نبی والے کتنے فرقوں میں بٹ گئے۔ 
صراطِ مستقیم کے لئے بہتر ہے کہ تم نور سے بھی ہدایت پا جاؤ۔

 

۔۔۔نور بنانے کا طریقہ۔۔۔

پرانے زمانے میں پتھروں کی رگڑ سے آگ حاصل کی جاتی تھی۔ جبکہ لوہے کی رگڑ سے بھی چنگاری اُٹھتی ہے۔ پانی پانی سے ٹکرایا تو بجلی بن گئی۔ اسی طرح انسان کے اندر خون کے ٹکراؤ یعنی دل کی ٹک ٹک سے بھی بجلی بنتی ہے۔ہر انسان کے جسم میں تقریباً ڈیڑھ والٹ بجلی موجود ہے، جس کے ذریعے اس میں پھرتی ہوتی ہے۔ بڑھاپے میں ٹک ٹک کی رفتار سُست ہونے کی وجہ سے بجلی میں بھی اورچستی میں بھی کمی آجاتی ہے۔ سب سے پہلے دل کی دھڑکنوں کو نمایاں کرنا پڑتا ہے۔ کوئی ڈانس کے ذریعہ، کوئی کبڈی یا ورزش کے ذریعہ اور کوئی اللہ اللہ کی ضربوں کے ذریعہ یہ عمل کرتے ہیں۔

جب دل کی دھڑکنوں میں تیزی آجاتی ہے پھر ہر دھڑکن کے ساتھ اللہ اللہ یا ایک کے ساتھ اللہ اور دوسری کے ساتھ ھو ملائیں۔ کبھی کبھی دل پر ہاتھ رکھیں، دھڑکنیں محسوس ہوں تو اللہ ملائیں، کبھی کبھی نبض کی رفتار کے ساتھ اللہ ملائیں۔ تصور کریں کہ اللہ دل میں جارہا ہے۔ اللہ ھو کا ذکر بہتر اور زود اثر ہے، اگر کسی کو ھو پر اعتراض یا خوف ہو تو وہ بجائے محرومی کے دھڑکنوں کے ساتھ اللہ اللہ ہی ملاتے رہیں، ورد و وظائف اور ذکوریت والے لوگ جتنا بھی پاک صاف رہیں اُن کے لئے بہتر ہے۔

کہ بے ادب، بے مراد … با ادب ، با مراد ہوتے ہیں

پہلا طریقہ:
سفید کاغذ پر کالی پنسل سے اللہ لکھیں، جتنی دیر طبیعت ساتھ دے روزانہ مشق کریں۔
ایک دن لفظ ا للہ کاغذ سے آنکھوں میں تیرنا شروع ہو جائے گاپھر آنکھوں سے تصور کے ذریعہ دل پر اُتارنے کی کوشش کریں۔

دوسرا طریقہ:
زیرو کے سفید بلب پر پیلے رنگ سے اللہ لکھیں،اُسے سونے سے پہلے یا جاگتے وقت آنکھوں میں سمونے کی کوشش کریں ۔جب آنکھوں میں آ جائے تو پھر اُس لفظ کو دل پر اُتاریں۔

تیسرا طریقہ:
یہ طریقہ اُن لوگوں کے لئے ہے جِن کے راہبر کامل ہیں اور تعلق اور نِسبت کی وجہ سے روحانی اِمداد کرتے ہیں۔تنہائی میں بیٹھ کر شہادت کی انگلی کو قلم خیال کریں اور تصور سے دل پر اللہ لکھنے کی کوشش کریں، راہبر کو پکاریں کہ وہ بھی تمھاری انگلی کو پکڑ کر تمھارے دل پر اللہ لکھ رہا ہے۔ یہ مشق روزانہ کریں جب تک دل پر اللہ لکھا نظر نہ آئے۔

پہلے طریقوں میں اللہ ویسے ہی نقش ہوتا ہے، جیسا کہ باہر لکھا یا دیکھا جاتا ہے۔ پھرجب دھڑکنوں سے اللہ ملنا شروع ہوجاتا ہے تو پھر آہستہ آہستہ چمکنا شروع ہوجاتا ہے۔ چونکہ اس طریقے میں کامل راہبر کا ساتھ ہوتا ہے، اس لئے شروع سے ہی خوشخط اور چمکتا ہوا دل پر اللہ لکھا نظر آتا ہے۔

دنیا میں کئی نبی ولی آئے، ذکر کے دوران بطور آزمائش باری باری، اگر مناسب سمجھیں تو سب کا تصور کریں جس کے تصور سے ذکر میں تیزی اور ترقی نظر آئے آپ کا نصیبہ اُسی کے پاس ہے۔ پھر تصور کیلئے اُسی کو چن لیں، کیونکہ ہر ولی کا قدم کسی نہ کسی نبی کے قدم پر ہوتا ہے، بے شک نبی ظاہری حیات میں نہ ہو۔ اور ہر مومن کا نصیبہ کسی نہ کسی ولی کے پاس ہوتا ہے۔ ولی کی ظاہری حیات شرط ہے۔ لیکن کبھی کبھی کسی کو مقدر سے کسی ممات والے کامل ذات سے بھی ملکوتی فیض ہوجاتا ہے، لیکن ایسا بہت ہی محدود ہے۔ البتہ ممات والے درباروں سے دنیاوی فیض پہنچاسکتے ہیں۔ اسے اویسی فیض کہتے ہیں اور یہ لوگ اکثر کشف اور خواب میں اُلجھ جاتے ہیں، کیونکہ مرشد بھی باطن میں اور ابلیس بھی باطن میں۔ دونوں کی پہچان مشکل ہوجاتی ہے۔

فیض کے ساتھ علم بھی ضروری ہوتا ہے، جس کیلئے ظاہری مرشد زیادہ مناسب ہے، اگر فیض ہے، علم نہیں تو اُسے مجذوب کہتے ہیں۔ فیض بھی ہے، علم بھی ہے اُسے محبوب کہتے ہیں۔ محبوب علم کے ذریعے لوگوں کو دنیاوی فیض کے علاوہ روحانی فیض بھی پہنچاتے ہیں، جبکہ مجذوب ڈنڈوں اور گالیوں سے دنیاوی فیض پہنچاتے ہیں۔

اگر کوئی بھی آپ کے تصور میں آکر آپ کی مدد نہ کرے تو پھر گوہر شاہی ہی کو آزما کر دیکھیں۔ مذہب کی قید نہیں، البتہ ازلی بدبخت نہ ہو۔ بہت سے لوگوں کو چاند سے بھی ذکر عطا ہو جاتا ہے۔ اُس کا طریقہ یہ ہے، جب پورا چاند مشرق کی طرف ہو، غور سے دیکھیں، جب صورت ِ گوہر شاہی نظر آجائے۔ تو تین دفعہ اللہ اللہ اللہ کہیں، اجازت ہو گئی۔پھر بے خوف و بے خطر درج شدہ طریقے سے مشق شروع کردیں۔ یقین جانیے، چاند والی صورت بہت سے لوگوں سے ہر زبان میں بات چیت بھی کرچکی ہے۔آپ بھی دیکھ کر بات چیت کی کوشش کریں۔

 

مراقبہ

بہت سے لوگ روحوں (لطائف) کی بیداری اور روحانی طاقت سیکھے بغیر مراقبہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا یا تو مراقبہ لگتا ہی نہیں یا شیطانی وارداتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مراقبہ انتہائی لوگوں کا کام ہے، جن کے نفس پاک اور قلب صاف ہوچکے ہوں۔ عام لوگوں کا مراقبہ نادانی ہے۔ خواہ کسی بھی ظاہری عبادت سے کیوں نہ ہو۔ روحوں کی طاقت کو نور سے یکجا کر کے کسی مقام پر پہنچ جانے کا نام مراقبہ ہے۔

ولائت نبوت کا چالیسواں حصہ ہے۔
نبی کا ہر خواب، مراقبہ یا الہام وحی صحیح ہوتا ہے، اسے تصدیق کی ضرورت نہیں۔ لیکن ولی کے سو(۱۰۰) میں سے چالیس(۴۰) خواب مراقبے یا الہامات صحیح اور باقی غلط ہوتے ہیں۔ اور ان کی تصدیق کے لئے علم ِ باطن کی ضرورت ہے، کہ

بے علم نتواں خدارا شناخت

سب سے ادنیٰ مراقبہ قلب کی بیداری کے بعد لگتا ہے، جو کہ ذکر ِقلب کے بغیر ناممکن ہے۔ ایک جھٹکے سے آدمی ہوش و حواس میں آجاتا ہے، استخارے کا تعلق بھی قلب سے ہے۔اس سے آگے روح کے ذریعہ مراقبہ لگتا ہے، تین جھٹکوں سے واپسی ہوتی ہے، تیسرا مراقبہ لطیفہ ِ انا اور روح سے اکھٹا لگتا ہے۔ روح بھی جبروت تک ساتھ جاتی ہے، جیسا کہ جبرائیل حضور پاکؐ کے ساتھ جبروت تک گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو قبروں میں بھی دفنا آتے ہیں مگر اُنہیں خبر نہیں ہوتی، ایسا مراقبہ اصحاب ِ کہف کو لگا تھا جو تین سو(۳۰۰) سال سے زائد عرصہ غار میں سوتے رہے۔ ایسا مراقبہ جب غوث پاکؓ کو جنگل میں لگتا تو وہاں کے مکین ڈاکو آپ کو مردہ سمجھ کر قبر میں دفنانے کے لئے لے جاتے تھے۔ لیکن دفنانے سے پہلے ہی وہ مراقبہ ٹوٹ جاتا۔

اللہ کی طرف سے خاص الہام اور وحی کی پہچان:
جب انسان سینے کی مخلوقوں کو بیدار اور منور کر کے تجلیات کے قابل ہو جاتا ہے تو اُس وقت اللہ اُس سے ہمکلام ہوتا ہے، یوں تو وہ قادر ِ مطلق ہے، کسی بھی ذریعہ انسان سے مخاطب ہو سکتا ہے لیکن اُس نے اپنی پہچان کے لئے ایک خاص طریقہ بنایا ہوا ہے تاکہ اُس کے دوست شیطان کے دھوکے سے بچ سکیں۔ سب سے پہلے سریانی زبان میں عبارت سالک کے دل پر آتی ہے، اور اُس کا ترجمہ بھی اُسی زبان میں نظر آتا ہے، جس کا وہ حامل ہے، وہ تحریر سفید اور چمکدار ہوتی ہے، اور آنکھیں خود بخود بند ہو کر اُسے دیکھتی ہیں پھر وہ تحریر قلب سے ہوتی ہوئی لطیفہء سری کی طرف آتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ چمکنا شروع ہوجاتی ہے۔ پھر وہ تحریر لطیفہء اخفیٰ کی طرف آتی ہے، اخفیٰ سے اور چمک حاصل کر کے زبان پر چلی جاتی ہے، اور زبان بے ساختہ وہ تحریر پڑھنا شروع کردیتی ہے۔ اگر یہ الہام شیطان کی طرف سے ہو تو منور دل اُس تحریر کو مدھم کر دیتا ہے، اگر تحریر زورآور ہے تو لطیفہء سری یا اخفیٰ اُس تحریر کو ختم کردیتے ہیں، بالفرض اگر لطیفوں کی کمزوری کی وجہ سے وہ تحریر زبان پر پہنچ بھی جائے تو زبان اُسے بولنے سے روک لیتی ہے۔یہ الہام خاص ولیوں کے لئے ہوتا ہے ،جبکہ عام ولیوں کو اللہ تعالیٰ فرشتوں یا ارواح کے ذریعے پیغام پہنچاتاہے۔ اور جب خاص الہام کی تحریر کے ساتھ جبرائیل بھی آجائیں تو اُسے وحی کہتے ہیں، جو صرف نبیوں کے لئے مخصوص ہے۔

محفل ذکر اسمِ ذات اللہ

لَا إِلٰهَ إِلَّا ٱلله
پہلا ذکر آٹھ ضربی ہے۔ یہ ذکرِ جہر کے طریقہ سے کیا جاتا ہے یعنی آواز کے ساتھ ۔پہلی ضرب قلب پر اور دوسری ضرب روح پر، اسی ترتیب سے آٹھویں ضرب روح پر لگائی جاتی ہے اور  قلب پر اسمِ ذات اللہ جبکہ روح پر ’’ھو‘‘  تصور کیا جاتا ہے۔

إِلٰهَ إِلَّا ٱلله
دوسرا ذکر چار ضربی ہے۔یہ ذکرِ جہر کے طریقہ سے کیا جاتا ہے یعنی آواز کے ساتھ ۔پہلی ضرب قلب پر اور دوسری روح پر، تیسری قلب پر اور چوتھی ضرب روح پر لگائی جاتی ہے اور قلب پر اسمِ ذات اللہ جبکہ روح پر ’’ھو‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔

اللہ ھو
تیسرا ذکر دو ضربی ہے۔یہ ذکرِ جہر کے طریقہ سے کیا جاتا ہے یعنی آواز کے ساتھ ۔ پہلی ضرب قلب پر جبکہ دوسری ضرب روح پر لگائی جاتی ہے۔ اس ذکر میں بھی قلب پر اسمِ ذات اللہ جبکہ روح پر ’’ھو‘‘ تصور کیا جاتا ہے۔

صلی اللہ علیک یا محمدﷺ
چوتھا ذکر  ذکرِ جہر کے طریقہ سے کیا جاتا ہے یعنی آواز کے ساتھ ۔اس ذکر میں پورے سینے پر اسمِ محمدﷺ کا تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ذکر بغیر ضرب کے کیا جاتا ہے۔

استغفراللہ ربی من کل ذنب واتوب علیہ
پانچھواں ذکر ذکرِ جہر کے طریقہ سے کیا جاتا ہے یعنی آواز کے ساتھ ۔اس ذکر میں ناف کے مقام پر اسمِ ذات اللہ کا تصور کیا جاتا ہے۔یہ ذکر بغیر ضرب کے کیا جاتا ہے۔

ذکرِ خفی
ذکرِ جہر کا مقصد دل کی دھڑکنوں کو ابھارنا ہوتا ہے۔ذکرِ جہر کے اختتام پر دل کی ابھری ہوئی دھڑکنوں کے ساتھ یہ ذکرِ خفی کیا جاتا ہے یعنی دل کی ابھری ہوئی ایک دھڑکن کے ساتھ اللہ مقامِ قلب پر  اور دوسری دھڑکن کے ساتھ ھو مقامِ روح پر ملایا جاتا ہے۔ یہ ذکر دل ہی دل میں یعنی بغیر آواز کے کیا جاتا ہے۔

جسم میں موجود لطائف کے ذکر اور انکے تصور

نام لطیفہ

1۔ قلب
2۔ روح
3۔ سری
4۔ خفی
5۔ اخفیٰ
6۔ انَا
7۔ نفس

ذکر

1۔ لاالہ الا اللہ
2۔ یا اللہ
3۔ یا حیی یا قیوم
4۔ یا واحد
5۔ یا احد
6۔ یا ھو
7۔ لاالہ الا اللہ محمدالرسول اللہ

تصور

1۔ للہ
2۔ لۂ
3۔ ھو
4۔ محمدﷺ
5۔ فقر
6۔ اللہ محمدؐ
7۔ اللہ

ان اذکار کو جو ترتیب دی گئی ہے یعنی ابتداء قلب اور انتہا نفس ہے روزانہ ایک یا دو تسبیح یا جتنا کر سکیں باری باری حرکت میں لائیں چلتے پھرتے ذکر قلب لفظ اﷲ‘ یا لِلّٰہ کا ورد جاری رکھیں یا جو لطیفہ حرکت میں آجائے سب لطائف کی حرکت سے ذاکر سلطانی اس کی انتہا کے بعد ذاکر ربانی اور اس کی انتہا کے بعد ذاکر قربانی ہوتا ہے۔ غوث و قطب یہاں تک پہنچتے ہیں تب مرتبہ ارشاد کے قابل ہوتے ہیں اور انہی کی محبت و نظر اور تعلیم صراط مستقیم کی طرف دلالت کرتی ہے۔ مساوی قطب و غوث بھی ان اذکار اور مراحل سے گزرے ہوتے ہیں لطائف کے جاگنے اور ذکر کرنے کی پہچان یہ ہے کہ یہ اپنے اپنے مقام میں بوقت توجہ قلب کی طرح حرکت کریں گے۔ اور رقت جیسی حالت طاری ہو جائے گی۔جب ذاکر سلطانی کی انتہا ہو جائے تو اس کے ہفت اندام پاک ہو جاتے ہیں اس وقت وہ عمل تکسیر کے قابل ہوتا ہے۔

 

۔۔۔جسم میں موجود لطائف کی تفصیل۔۔۔

لطیفہ قلب:
گوشت کے لوتھڑے کو اردو میں دل اور عربی میں فواد بولتے ہیں، اور اس مخلوق کو جو دل کے ساتھ ہے، قلب بولتے ہیں اس کی نبوت اور علم آدم ؑ کو ملا تھا۔ حدیث میں ہے کہ دل اور قلب میں فرق ہے۔ اس دنیا کو ناسوت بولتے ہیں، اس کے علاوہ اور جہان بھی ہیں، یعنی ملکوت، عنکبوت ، جبروت، لاہوت، وحدت اور احدیت۔ یہ مقام ناسوت میں گولہ پھٹنے سے پہلے تھے۔ اور ان کی مخلوقیں بھی پہلے سے موجود تھیں۔ فرشتے ارواح کے ساتھ بنے۔ لیکن ملائکہ اور لطائف پہلے ہی سے ان مقامات پر موجود تھے، بعد میں عالمِ ناسوت میں بھی کئی سیاروں پر دنیا آباد ہوئی۔ کوئی مٹ گئے اور کوئی منتظر ہیں۔ یہ مخلوق یعنی لطائف اور ملائکہ روحوں کے امر ِکن سے ۰۷ ہزار سال پہلے بنائے گئے تھے اور ان میں سے قلب کو مقام ِ محبت میں رکھا گیا، اور اسی کے ذریعے انسان کا رابطہ اللہ سے جڑ جاتا ہے۔ اللہ اور بندے کے درمیان یہ ٹیلی فون آپریٹر کی حیثیت رکھتا ہے۔ انسان پر دلیل و الہامات اسی کے ذریعے وارد ہوتے ہیں۔ جبکہ لطائف کی عبادات بھی اسی کے ذریعے عرشِ بالا پر پہنچتی ہیں۔ لیکن یہ مخلوق خود ملکوت سے آگے نہیں جاسکتی، اس کا مقام خلد ہے۔ اس کی عبادت بھی اندر، اور تسبیح بھی انسان کے ڈھانچے میں ہے۔ اس کی عبادت کے بغیر والے جنتی بھی افسوس کرینگے۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا کہ کیا ان لوگوں نے سمجھ رکھا ہے کہ ہم ان کو نیکوکاروں کے برابر کر دینگے۔ کیونکہ قلب والے جنت میں بھی اللہ اللہ کرتے رہیں گے۔

جسمانی عبادت مرنے کے بعد ختم ہوجاتی ہے، جن کے قلب اور لطائف اللہ کے نور سے طاقتور نہیں، وہ قبروں میں ہی خستہ حالت میں رہیں گے یا ضائع ہوجائیں گے۔ جبکہ منور اور طاقتور لطائف مقامِ علیین میں چلے جائیں گے۔ یومِ محشر کے بعد جب دوسرے جسم دئیے جائیں گے تو پھر یہ لطائف بھی روح انسانی کے ساتھ اس جسم میں داخل ہونگے، جنہوں نے ان کو دنیا میں اللہ اللہ سکھایا تھا ، وہاں بھی اللہ اللہ کرتے رہیں گے۔ اور وہاں جاکر بھی ان کے مرتبے بڑھتے رہیں گے۔ اور جو اِدھر دل کے اندھے تھے وہ اُدھر بھی اندھے ہی رہیں گے۔ کیونکہ میدانِ عمل یہ دنیا تھی، اور وہ ایک ہی جگہ ساکن ہو جائیں گے۔

عیسائیوں، یہودیوں کے علاوہ ہندو مذہب بھی ان مخلوقوں کا قائل ہے۔ ہندو انہیں شکتیاں اور مسلمان لطائف کہتے ہیں۔ قلب دل کے بائیں طرف دو انچ کے فاصلے پر ہوتا ہے اس مخلوق کا رنگ زرد ہے۔ اِس کی بیداری سے انسان زرد روشنی اپنی آنکھوں میں محسوس کرتا ہے۔ بلکہ کئی عامل حضرات ان لطائف کے رنگوں سے لوگوں کا علاج بھی کرتے ہیں۔

اکثر لوگ اپنے دل کی بات بر حق مانتے ہیں، اگر واقعی دل سچے ہیں تو سب دل والے ایک کیوں نہیں۔ عام آدمی کا قلب صنوبری ہوتا ہے جس میں کوئی سدھ بدھ نہیں ہوتی ، نفس اور خناس کے غلبے یا اپنے سیدھے پن کی وجہ سے غلط فیصلہ بھی دے سکتا ہے۔ قلبِ صنوبری پر اعتماد نادانی ہے۔ جب اس دل میں اللہ کا ذکر شروع ہوجاتا ہے، پھر اس میں نیکی بدی کی تمیز اور سمجھ آجاتی ہے، اسے قلب ِسلیم کہتے ہیں، پھر ذکر کی کثرت سے اُس کا رُخ رب کی طرف مُڑ جاتا ہے، اُسے قلب ِمنیب کہتے ہیں، یہ دل برائی سے روک سکتا ہے مگر یہ صحیح فیصلہ نہیں کرسکتا، پھر جب اللہ تعالیٰ کی تجلیات اُس دل پر گرنا شروع ہوجاتی ہیں تو اُسے قلبِ شہید کہتے ہیں۔

الحدیث: شکستہ دِل اور شکستہ قبر پر اللہ کی رحمت پڑتی ہے۔

اُس وقت جو دِل کہے چپ کرکے مان لے، کیونکہ تجلی سے نفس بھی مطمئنہ ہوجاتا ہے اور اللہ حبل الورید ہوجاتا ہے، پھر اللہ کہتا ہے کہ میں اُس کی زبان بن جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے، اُس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے۔

روحِ انسانی:
اس کی نبوت اور علم حضرت ابراہیم ؑ کو ملا تھا۔
یہ دائیں پستان کے قریب ہوتی ہے۔ ذکر کی ضربوں اور تصور سے اِس کو بھی جگایا جاتا ہے۔پھر ادھر بھی ایک دھڑکن نمایاں ہوجاتی ہے۔ اِ س کے ساتھ (ذکر) یا اللہ ملایا جاتا ہے، پھر انسان کے اندر دو بندے ذکر کرنا شروع کردیتے ہیں اور اِ س کا مرتبہ قلب والے سے بڑھ جاتا ہے۔ روح کا رنگ سرخی مائل ہوتا ہے اور اِس کی بیداری سے جبروت تک (جو مقامِ جبرائیل ہے)رسائی ہوجاتی ہے۔ غضب و غصہ اِس کے ہمسایہ ہوتے ہیں، جوجل کر جلال بن جاتے ہیں۔

لطیفہ سری:
اس کی نبوت اور علم حضرت موسیٰ ؑ کو ملا تھا۔
یہ مخلوق سینے کے درمیا ن سے بائیں پستان کے درمیان ہوتی ہے۔اس کو بھی یا حیئی یا قیوم کی ضربوں اور تصور سے بیدار کیا جاتا ہے۔ اِس کا رنگ سفید ہے۔ خواب یا مراقبے میں لاہوت تک پہنچ رکھتی ہے، اب تین مخلوقیں ذکر کررہی ہیں اور اِس کا درجہ اُن دو سے بڑھ گیا۔

لطیفہ خفی:
اس کی نبوت اور علم حضرت عیسیٰ ؑ کو ملا تھا۔
یہ سینے کے درمیان سے دائیں پستان کے درمیان ہوتی ہے، اِسے بھی ضربوں کے ذریعہ یا واحد سکھایا جاتا ہے۔ اِس کا رنگ سبز ہے اور اِس کی رسائی مقامِ وحدت سے ہے، اور اب چار بندوں کی عبادت سے درجہ اور بڑھ گیا۔

لطیفہ اخفیٰ:
اس کی نبوت اور علم حضور پاکﷺ کو ملا تھا۔
یہ مخلوق سینے کے درمیان ہے۔ یا احد کا ذکر اِس کے لئے وسیلہ ہے۔ اِس کا رنگ جامنی ہے، اِ س کا تعلق بھی مقامِ وحدت کے اُس پردے سے ہے جس کے پیچھے تخت ِ خداوند ہے۔

پانچوں لطیفوں کا باطنی علم بھی پانچوں نبیوں کو بالتر تیب حاصل ہوا، اور ہر لطیفے کا آدھا علم نبیوں سے ولیوں تک پہنچا، اس طرح اس کے دس حصے بن گئے۔پھر ولیوں سے خاص ، اس علم سے مستفیض ہوئے۔جبکہ ظاہری علم، ظاہری جسم،ظاہری زبان،ناسوت اور نفوس سے تعلق رکھتا ہے۔یہ عام لوگوں کے لئے ہے۔اور اس کا علم ظاہری کتاب میں ہے۔جس کے تیس (30) حصے ہیں۔علمِ باطن بھی نبیوں پروحی کے ذریعے نازل ہوا، اس وجہ سے اسے بھی باطنی قرآن بولتے ہیں۔قرآن کی بہت سی سورتیں بعد میں منسوخ کی جاتیں۔ اُس کی وجہ یہی تھی کہ کبھی کبھی سینے کا علم بھی حضورپاکؐ کی زبان سے عام میں ادا ہوجاتا۔جوکہ خاص کے لئے تھا، بعد میں یہ علم سینہ بہ سینہ ولیوں میں چلتا رہا اور اب کتب کے ذریعے عام کردیا گیا۔

لطیفہ انا:
یہ مخلوق سر میں ہوتی ہے، بے رنگ ہے۔ یاھُو کا ذکر اِس کی معراج ہے۔ اور یہی مخلوق طاقتور ہوکر خدا کے روبرو بے پردہ ہمکلام ہوجاتی ہے۔ یہ عاشقوں کا مقام ہے،اِس کے علاوہ کچھ خواص کو اللہ کی طرف سے اور (دیگر) مخلوقیں بھی عطا ہوجاتی ہیں، جیسے طفل ِ نوری یا جُسہِ توفیق ِ الٰہی، پھر ان کا مرتبہ سمجھ سے بالا ہے۔

لطیفہ ِ انا کے ذریعہ دیدارِ الٰہی خواب میں ہوتا ہے
جُسہِ توفیق ِ الٰہی کے ذریعہ رب کا دیدار مراقبے میں ہوتا ہے
اور طفل ِ نوری والوں کو رب کا دیدار ہوش و حواس میں ہوتا ہے

یہی پھر دنیا میں قدرت اللہ کہلاتے ہیں، چاہے کسی کو عبادت و ریاضت ، اور چاہےکسی کو نظروں سے ہی مقام ِ محمود تک پہنچادیں، اِن کی نظروں میں

چہ مسلم چہ کافر، چہ زندہ چہ مردہ

سب برابر ہوتے ہیں، جیسا کہ غوث پاکؓ کی ایک نظر سے چور، قطب بن گیا۔ یا ابو بکر حواری یا منگا ڈاکو بھی اِن لوگوں کی نظروں سے پیر بن گئے۔

پانچوں مرسل کو بالترتیب علیحدہ علیحدہ لطائف کا علم دیا گیا جس کی وجہ سے روحانیت میں ترقی ہوتی گئی۔ جس جس لطیفے کا ذکر کرے گا، اُن سے متعلق مرسل سے تعلق اور فیض کا حق دار ہوجائے گا۔ اور جس لطیفے پر تجلی پڑے گی، اس کی ولائت اُس نبی کے نقش قدم پر ہوگی۔ سات آسمانوں میں پہنچ اور سات بہشتوں میں مدارج کی حصولی بھی ان ہی لطائف سے ہوتی ہے۔

لطیفہ نفس:
یہ شیطانی جرثومہ ہے۔ ناف میں اس کا ٹھکانہ ہے۔ سب نبیوں ولیوں نے اس کی شرارت سے پناہ مانگی، اس کی غذا فاسفورس اور بدبو ہے، جو ہڈیوں، کوئلے اور گوبر میں بھی ہوتی ہے۔ ہر مذہب نے جنابت کے بعد نہانے پر زور دیا ہے۔ کیونکہ جنابت کی بدبو مساموں سے بھی خارج ہوتی ہے۔ بدبو دار قسم کے مشروب اور بدبو دار قسم کے جانوروں کے گوشت کو بھی ممنوع قرار دیا ہے۔

روزِ ازل میں اللہ کے سامنے والی تمام روحیں، جمادی تک، ایک دوسرے سے مانوس اور متحد ہوگئیں۔ روح جمادی کی وجہ سے انسان نے پتھروں کے مکان بنائے، اور روحِ نباتی کی وجہ سے درختوں کی لکڑیوں سے چھت بنائے، درختوں کے سائے سے بھی مستفیض ہوئے، درختوں نے ان کو صاف ستھری آکسیجن پہنچائی۔ پیچھے والی حیوانی روحیں جو دنیا میں آکر جانور بن گئے، سب انسانوں کے لئے حلال کر دئیے گئے۔جبکہ ان ہی سے متعلقہ پرندے بھی حلال کر دیے گئے۔

بائیں طرف جنات اور سفلی مؤکلات بنے پھر اُن سے پیچھے کی طرف خبیث ارواح جو آخر میں دشمنِ خدا ہوئیں۔ اور وہ حیوانی ، نباتی اور جمادی روحیں جو خبیثوں کے پیچھے نمودار ہوئیں تھیں اُنہوں نے انسانوں سے دشمنی کری، اُن کی روح جمادی کے دنیا میں آنے سے راکھ، کوئلہ بنی، جس کی گیس انسانوں کے لئے نقصان دہ تھی۔ اُن کی روحِ نباتی سے خطرناک اور کانٹے دار قسم کے اور آدم خور قسم کے درخت وجود میں آئے اور اُن کی روح حیوانی سے آدم خور اور درندہ قسم کے جانور پیدا ہوئے، اور اُن سے متعلقہ پرندے بھی ان ہی کی انسان دشمنی کی خصلت کی وجہ سے حرام قرار دیئے گئے ۔ جن کی پہچان یہ ہے کہ وہ پنجے سے پکڑکر غذا کھاتے ہیں۔

دائیں جانب والی ارواح کو انسان کا خادم، پیغام رساں اور مدد گار بنا دیا اور انسان کو سب سے زیادہ فضیلت عطا کرکے اپنا خلیفہ مقرر کردیا۔ اب انسان کی مرضی، محنت اور قسمت ہے کہ خلافت منظور کرے یا ٹھکرادے۔ نفس خواب میں جسم سے باہر نکل جاتا ہے اور اس بندے کی شکل میں جنات کی شیطانی محفلوں میں گھومتا ہے۔ نفس کے ساتھ خناس بھی ہوتا ہے، جس کی شکل ہاتھی کی طرح ہوتی ہے اور یہ نفس اور قلب کے درمیان بیٹھ جاتا ہے، انسان کو گمراہ کرنے کےلئے نفس کی مدد کرتا ہے۔ اس کے علاوہ چار پرندے بھی انسان کو گمراہ کرنے کےلئے چاروں لطائف کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ جیسا کہ قلب کے ساتھ مرغ، جس کی وجہ سے دل پر شہوت کا غلبہ رہتا ہے، قلب کے ذکر سے وہ مرغ ، مرغ ِ بسمل بن جاتا ہے، اور حرام و حلال کی تمیز کا شعور پیدا کردیتا ہے۔ پھر اس قلب کو قلب ِسلیم کہتے ہیں۔ سری کے ساتھ کوا، کوے کی وجہ سے حرص، اور خفی کے ساتھ مور، مور کی وجہ سے حسد، اور اخفیٰ کے ساتھ کبوتر، کبوتر کی وجہ سے بخل آجاتا ہے۔ اور اُنکی خصلتیں لطائف کو حرص و حسد پر مجبور کردیتی ہیں، جب تک لطائف منور نہ ہو جائیں۔ ابراہیم ؑ علیہ السلام کے جسم سے ان ہی چار پرندوں کو نکال کر، پاکیزہ کر کے دوبارہ جسم میں ڈالا گیا تھا۔ مرنے کے بعد پاکیزہ لوگوں کے یہ پرندے درختوں پر بسیرا بنالیتے ہیں۔ بہت سے لوگ جنگلوں میں کچھ دن رہ کر پرندوں جیسی آوازیں نکالتے ہیں، اور یہ پرندے ان سے مانوس ہو جاتے ہیں اور اُن کے چھوٹے موٹے علاجوں میں معاون بن جاتے ہیں۔جب کہ روح شہباز کی صورت میں ہوتی ہے۔

…انسانی جسم میں اِن لطائف کی ڈیوٹیاں…

لطیفہ ِ اخفیٰ: اِس کے ذریعہ انسان بولتا ہے۔ ورنہ زبان ٹھیک ہونے کے باوجود وہ گونگا ہے۔ انسانوں اور حیوانوں میں فرق اِن لطائف کا ہے۔ پیدائش کے وقت اگر اخفیٰ کسی وجہ سے جسم میں داخل نہ ہو سکے تو اسے جسم میں منگوانا کسی متعلقہ نبی کی ڈیوٹی تھی، پھر گونگے بولنا شروع ہوجاتے تھے۔

لطیفہ ِسری: اِس کے ذریعہ انسان دیکھتا ہے۔ اِس کے جسم میں نہ آنے سے انسان پیدائشی اندھا ہے، اِس کو واپس لانا بھی کسی متعلقہ نبی کی ڈیوٹی تھی، جس سے اندھے بھی دیکھنا شروع ہوجاتے تھے۔

لطیفہ ِقلب: اِس کے جسم میں نہ ہونے کی وجہ سے انسان بالکل جانوروں کی طرح رب سے نا آشنا اور دور ، بے شوق بے کیف ہوجاتا ہے، اِس کو واپس دلوانا بھی نبیوں کا کام تھا۔ اور اُن نبیوں کے معجزات کرامت کی صورت میں ولیوں کو بھی عطا ہوئے، جس کے ذریعہ فاسق و فاجر بھی رب تک پہنچ گئے۔کسی بھی ولی یا نبی کے ذریعہ جب کسی متعلقہ لطیفے کو واپس کیا جاتا ہے تو گونگے بہرے اور اندھے بھی شفا یاب ہو جاتے ہیں۔

لطیفہ ِانا: اِس کے جسم میں نہ آنے سے انسان پاگل کہلاتا ہے، بے شک دماغ کی سب نسیں کام کررہیں ہوں۔

لطیفہ ِخفی: اِس کے نہ آنے سے انسان بہرہ ہے۔خواہ کان کے سوراخ کھول دئے جائیں۔جسمانی نقائص سے بھی یہ حا لتیں پیدا ہوسکتی ہیں، جو قابل ِعلاج ہیں، لیکن مخلوقوں کے ناپید ہونے کا کوئی علاج نہیں، جب تک کسی نبی یا ولی کی حمایت حاصل نہ ہو۔

لطیفہ ِنفس: کے ذریعہ انسان کا دل دنیا میں، اور لطیفہِ قلب کے ذریعہ انسان کا رُخ اللہ کی طرف مڑ جاتا ہے۔

%d bloggers like this: